رسائی کے لنکس

شمیم حنفی: اردو تنقید نگاری کا ایک عہد تمام ہوا


شمیم حنفی ادب کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ سے بھی گہری وابستگی رکھتے تھے۔ وہ ادیب، نقاد اور ڈرامہ نگار کے علاوہ شاعر اور مصور بھی تھے۔
شمیم حنفی ادب کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ سے بھی گہری وابستگی رکھتے تھے۔ وہ ادیب، نقاد اور ڈرامہ نگار کے علاوہ شاعر اور مصور بھی تھے۔

برصغیرِ پاک و ہند کے معروف نقاد، ادیب اور ڈرامہ نگار پروفیسر شمیم حنفی چھ مئی 2021 کی شب نئی دہلی میں انتقال کر گئے۔ چند روز قبل ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ سات مئی کی صبح کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں ان کی تدفین کر دی گئی۔

شمیم حنفی مسلم یونیورسٹی علیگڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں استاد رہے۔ جامعہ ملیہ کے شعبہ اردو نے انہیں پروفیسر ایمریٹس مقرر کیا تھا۔ وہ تاحیات اس منصب پر رہے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز اینڈ لینگوئجز کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

پروفیسر شمیم حنفی فروغِ اردو کے اہم ادارے ’ریختہ‘ اور ’جشن ادب‘ کے سرپرست بھی تھے۔ اس کے علاوہ وہ 2010 سے غالب اکیڈمی، نئی دہلی کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

انہیں 2010 میں مسلم یونیورسٹی کے اعلیٰ فیصلہ ساز ادارے ’یونیورسٹی کورٹ‘ کا رکن نامزد کیا گیا تھا۔

ابتدائی زندگی اور خدمات

شمیم حنفی 17 مئی 1938 کو اترپردیش کے سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1967 میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے، 1972 میں پی ایچ ڈی اور 1976 میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈی لٹ کیا۔

وہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی مقبول تصانیف میں ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ اور ’نئی شعری روایت‘ قابل ذکر ہیں۔

انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی انگریزی کتاب ’انڈیا ونز فریڈم‘ کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔

ان کی دیگر کتابوں میں ’تاریخ تہذیب اور تخلیقی تجربہ‘، ’اردو کلچر اور تقسیم کی روایت‘، ’خیال کی مسافت‘، ’قاری سے مکالمہ‘، ’منٹو: حقیقت سے افسانے تک‘، ’غالب کی تخلیقی حسیت‘، ’آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ‘ اور ’غزل کا نیا منظر نامہ‘ قابل ذکر ہیں۔

انہوں نے بچوں کے لیے بھی کتابیں لکھیں اور متعدد کتب کے ترجمے بھی کیے۔

شمیم حنفی کو قطر کی ادبی تنظیم ’مجلس فروغ اردو ادب‘ نے جنوری 2021 میں اردو ادب کے فروغ کے لیے بین الاقوامی ایوارڈ تفویض کیا۔

'ادب اور مطالعے سے محبت نے مجھے لکھنا سکھایا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:38 0:00

انہیں’مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ‘ ، ’پرویز شاہدی ایوارڈ‘ ، ’دہلی اردو اکادمی ایوارڈ‘ اور ’غالب ایوارڈ‘ بھی مل چکا ہے۔

ادب ، شاعری اور مصوری

انہیں ادبی دنیا میں بہت احترام کی نظر سے دیکھا جا تا تھا۔ ان کے انتقال پر متعدد ادبی شخصیات نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر شمیم حنفی کے شاگرد رہنے والے پروفیسر کوثر مظہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شمیم حنفی کا انتقال نہ صرف بھارت بلکہ پوری اردو دنیا کا بڑا نقصان ہے۔

ان کے مطابق وہ کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی ادبی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ ان کی یادداشت بہت غضب کی تھی۔ وہ یادداشت کے معاملے میں بھی اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اردو ادب کے علاوہ عالمی ادب پر بھی ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ ہندی، انگریزی، فرانسیسی اور یہاں تک کہ سنسکرت ادب پر بھی ان کی نگاہ تھی۔ اس کے علاوہ جنوبی بھارت کے ادب پر بھی وہ نظر رکھتے تھے۔

کوثر مظہری کے مطابق شمیم حنفی کو فنون لطیفہ سے بھی بڑی دل چسپی تھی۔ وہ ادیب، نقاد اور ڈراما نگار کے علاوہ شاعر اور مصور بھی تھے۔ ان کا انداز تخاطب بہت دلچسپ تھا اور گفتگو اور تقریر میں انگریزی ادبا و شعرا کے خوب حوالے دیتے تھے۔

ان کے مطابق انہوں نے اپنی کتاب ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ میں پہلی بار مغربی ادب میں رائج اصطلاحات کو اردو اصطلاحات میں تبدیل کرکے پیش کیا۔

جس سے بعد کے لکھنے والوں کو بہت رہنمائی ملی۔ یہ ان کے ڈی لٹ کا موضوع تھا جو دو حصوں میں شائع ہوا تھا۔

فراق گورکھپوری کا دفاع

معروف نقاد اور دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر عتیق اللہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم یونیورسٹی میں خلیل الرحمٰن اعظمی کی صحبت نے ان کے تنقیدی شعور کو جلا بخشی۔ پروفیسر احتشام حسین نے بھی ان کی ذہن سازی کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ الہ آباد میں تعلیم کے دوران وہ فراق گورکھپوری کے رابطے میں آئے۔

عتیق اللہ کے بقول شمس الرحمن فاروقی فراق کو بڑا شاعر نہیں مانتے تھے۔ لیکن شمیم حنفی نے حسن عسکری کے ساتھ فراق گورکھپوری کے دفاع میں بہت کچھ لکھا۔

ان کے مطابق شمیم حنفی کثیر المطالعہ تھے۔ وہ بھارت اور پاکستان کے ادبی رسائل کا مطالعہ کرتے اور پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں سے بھی ان کے بڑے گہرے روابط رہے۔

امید اور نئی صبح کا یقین دلاتا ادب
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:01 0:00

انہوں نے پاکستانی ادیبوں پر بھی خوب لکھا۔ اس لیے پاکستان میں بھی ان کے مداحوں کی کافی تعداد ہے۔

ان کے بقول شمیم حنفی نے 20 ویں صدی میں عالمی ادب میں رونما ہونے والے ادبی رجحانات اور تحاریک پر اپنی کتاب ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ میں بحث کی ہے۔ وہ جدیدیت کی مخصوص ہیئت پسندی کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ شمیم حنفی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کو برصغیر میں ایک نئی شناخت دی اور وقار عطا کیا۔ اس سلسلے میں گوپی چند نارنگ کی بھی خدمات رہی ہیں۔ آج جامعہ کے شعبہ اردو کو جو مقام حاصل ہے اس کا سہرا شمیم حنفی کے سر جاتا ہے۔

’ان کے ڈراموں میں ہمارا سماج نظر آتا ہے‘

دہلی یونیورسٹی میں استاد اور ڈرامہ نگار پروفیسر محمد کاظم نے شمیم حنفی کی ڈرامہ نگاری کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے ریڈیو کے لیے بہت اہم ڈرامے لکھے جن کے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان کے کچھ ڈراموں کو اسٹیج بھی کیا گیا اور ان کے کئی ڈرامے نصاب میں شامل ہیں۔

ان کے مطابق شمیم حنفی کے ڈراموں میں ہمارا سماج، ہمارا ادب اور عوام صاف طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے ریڈیو کی تکنیک کے حوالے سے بھی بہت اچھے ڈرامے لکھے۔

غالب اکیڈمی، نئی دہلی کے سیکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے بتایا کہ شمیم حنفی کی کتاب ’غالب کی تخلیقی حسیت‘ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوئی۔

ان کے مطابق شمیم حنفی کا تعلق ہندی اداروں سے بھی رہا ہے۔ مثال کے طور پر گیان پیٹھ، وانی پرکاشن، رضا فاونڈیشن اور راج کمل پرکاشن شمیم حنفی کے مشوروں کو کافی اہمیت دیتے تھے۔

مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ شمس الرحمٰن فاروقی کے بعد شمیم حنفی کا انتقال اردو دنیا کا ایک بڑا سانحہ ہے۔

ان کے بقول شمیم حنفی کی ادب کی مختلف اصناف اور جہات پر زبردست پکڑ تھی۔ اب ایسے لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تراجم کے اعتبار سے ان کی بہت خدمات ہیں۔ انہوں نے جامعہ ملیہ کے رسالہ ’جامعہ‘ کے مدیر کی حیثیت سے جو ادبی خدمات انجام دیں وہ غیر معمولی ہیں۔

پاکستان میں خراج عقیدت

پاکستان کے متعدد ادیبوں، شعرا اور ادبی تنظمیوں سے تعلق رکھنے والوں نے بھی شمیم حنفی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ نے شمیم حنفی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔

شمیم حنفی پاکستان کے ادبی میلوں اور خاص طور پر عالمی اردو کانفرنس کے کئی بار مہمان بنے تھے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG