رسائی کے لنکس

ہندو لڑکیوں میں تبدیلی مذہب کا معاملہ: سب کسی جبر کا نتیجہ نہیں، سربراہ پارلیمانی کمیٹی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں جبری مذہب کی تبدیلی کے اسباب جاننے کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کے مذہب کی تبدیلی کے زیادہ تر واقعات میں لڑکی کی آمادگی دیکھی گئی ہے جسے جبری مذہب کی تبدیلی نہیں کہا جا سکتا۔

ان کا کہنا ہے کہ مذہب کی تبدیلی مسئلہ نہیں ہے البتہ سندھ کے بعض اضلاع میں مذہب کی جبری تبدیلی کی شکایات سامنے آنے کے بعد وزیرِ اعظم کی سفارش پر پارلیمانی کمیٹی ان محرکات و اسباب کا جائزہ لے رہی ہے۔

اقلیتوں کے، مذہب کی جبری تبدیلی سے تحفظ کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے سندھ کے مختلف اضلاع میں اقلیتی برادری کے افراد سے ملاقاتیں کیں۔ ان اضلاع میں ہندو لڑکیوں پر جبر کے ذریعے مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی شکایات تھیں۔

اپنے اس دورے کے بعد وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ مذہب کی تبدیلی کے ان واقعات کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں جن میں ایک معاشی سبب بھی ہے۔

ان کے بقول ریاست اقلیتوں کے حقوق اور انہیں برابری کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ سندھ میں مذہب کی تبدیلی کی 84 شکایات کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ زیادہ تر کیسز میں ہندو لڑکیوں نے اپنی آمادگی سے مذہب تبدیل کیا اور اس بارے عدالت میں اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا۔

'مذہب تبدیل کرانے والے گروہ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے'

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ سندھ میں منظم گروہ مذہب تبدیل کرا رہا ہے۔

اس حوالے سے انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ ہندو برادری کو شکایت ہے کہ معاشرتی دباؤ کے باعث ہندو لڑکیاں اغوا کے بعد ایسا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

ان کے بقول کمیٹی ان پہلؤں کو بھی اپنی سفارشات میں شامل کرے گی۔

سندھ میں ہندو لڑکیوں کے مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے تجویز کیا کہ ایسے گروہ جو مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے سرگرم ہیں اور ایسے اقدامات کی اعلانیہ سرپرستی کرتے ہیں، ریاست کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

دورۂ سندھ کے دوران ہندو برادری نے وزیرِ اعظم عمران خان سے مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات کی شکایت کی تھی۔ بعد ازاں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں حکمران اتحاد کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی بھی نمائندگی موجود ہے۔

پارلیمانی کمیٹی نے سندھ کے ان اضلاع کا، جہاں جبری تبدیلی مذہب کی شکایات ہیں، دورہ کیا اور عوامی کچہری کے ذریعے اقلیتی برادری کی شکایات سنیں اور صوبائی و ضلعی انتظامیہ سے بریفنگ لی۔

پارلیمانی کمیٹی کے رکن اور حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما کھِل داس کوہستانی کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست نہیں کہ جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات نہیں ہو رہے۔ اگر ایسا نہ ہو رہا ہوتا تو پارلیمانی کمیٹی کا نام مذہب کی جبری تبدیلی کمیٹی کیوں رکھا جاتا؟

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا وہ بطور رکن کمیٹی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ جبری مذہب تبدیلی کے واقعات نہیں ہو رہے۔ یہ کمیٹی کے چیئرمین کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے۔ کمیٹی نے ایسی کسی بات سے اتفاق نہیں کیا۔

پاکستان کی ہندو اقلیت کے لیے قانون سازی کی ضرورت
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:32 0:00

مذہب تبدیلی کے لیے قانون سازی

ہندو برادری کی شکایت ہے کہ ان کی نو عمر لڑکیوں کے اغوا اور جبری تبدیلی مذہب کے بعد ان کا مسلمان مردوں سے نکاح کر دیا جاتا ہے۔

سندھ کی حکومت نے مذہب کی جبری تبدیلی کے حوالے سے قانون سازی کی تھی۔ تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے ردِ عمل آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے اس بل میں ترامیم کر کے واپس پیش کرنے کا کہا تھا۔ البتہ چار سال گزرنے کے باوجود ایسا نہیں ہو سکا ہے۔

کھِل داس کہتے ہیں کہ وہ جبری مذہب تبدیلی کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی چاہتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ پارلیمانی کمیٹی متعلقہ حلقوں سے مشاورت کے بعد قانونی بل لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

انوار الحق کاکڑ کا بھی کہنا ہے کہ جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی روک تھام کے لیے متعلقہ حلقوں کو اعتماد میں لے کر قانونی سازی پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی رائے طلب کی گئی ہے۔ کیوں کہ اسلام میں ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کا نکاح نہیں ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG