رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: مسلمان شہری پر بودھ خاتون سے زبردستی شادی کا الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے لداخ میں مسلمان شہری پر بودھ مت سے تعلق رکھنے والی خاتون کے اغوا اور زبردستی مذہب تبدیل کر کے شادی کا الزام لگایا گیا ہے جس کے باعث علاقے میں تناؤ پایا جاتا ہے۔

دارالحکومت سری نگر سے 450 کلو میٹر شمال میں واقع لداخ کے علاقے زانسکار سے تعلق رکھنے والی ایک بودھ خاتون سونم انگمو کے اسلام قبول کر کے ایک مقامی مسلم شہری سے شادی کرنے کے بعد اُس کے والدین نے مقامی تھانے میں گمشدگی کی شکایت درج کرائی ہے۔

لڑکی کے اہلِ خانہ نے یہ الزام لگایا ہے کہ اُن کی بیٹی نابالغ ہے جسے ایک 31 سالہ مسلم شخص عبد القادر وانی نے اغوا کر کے اُس کے ساتھ زبردستی شادی کی ہے۔

لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن نے خطے کے انتظامی سربراہ لیفٹننٹ گورنر رادھا کرشن ماتھر کو ایک خط لکھ کر خاتون کو برآمد کر کے اُسے والدین کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑک سکتا ہے۔

تنظیم نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ وانی نے بودھ لڑکی کو اغوا کر کے اس کے ساتھ زبردستی شادی کر لی ہے اور اس اقدام کا مقصد خاتون کا زبردستی مذہب تبدیل کرانا ہے۔

بھارتی کشمیر میں لڑکیوں کی بر وقت شادی نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:20 0:00

نو برس سے جاری سماجی بائیکاٹ

واضح رہے اکتوبر 2012 میں زانسکار کے دو بودھ خاندانوں پر مشتمل 22 افراد کی طرف سے تبدیلیٔ مذہب کے بعد سے اب تک اکثریتی بودھ آبادی اقلیتی مسلمان فرقے کا سماجی بائیکاٹ کرتی چلی آ رہی ہے۔

پولیس نے بودھ خاتون کے ساتھ شادی کرنے والے شہری کے والد محمد شفیع وانی اور بھائی مدثر وانی کو حراست میں لے کر مقامی پولیس تھانے میں بند کر دیا ہے۔

شادی شدہ جوڑے کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ روپوش ہے۔ تاہم ضلع کرگل کے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار عنایت اللہ چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ باپ بیٹے کو صرف پوچھ گچھ کے لیے تھانے بلایا جا رہا ہے کیوں کہ بودھ لڑکی کے والدین نے یہ شکایت درج کرائی ہے کہ عبد القادر وانی زبردستی اُن کی بیٹی کو لے کر فرار ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاتون کے والدین کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔

پولیس افسر نے مزید کہا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ جوڑا پولیس اسٹیشن میں آ کر اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ لیکن ملزم کے اہلِ خانہ اور وکیل ان کا ٹھکانہ نہیں بتا رہے اور نہ ہی وہ خود سامنے آ رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں قانونی کارروائی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔"

عنایت اللہ چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ہم علاقے میں فرقہ ورانہ کشیدگی نہیں چاہتے اور کوشش یہی ہے کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے۔

جوڑے نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے: ملزم کے وکیل کا مؤقف

جموں، کشمیر و لداخ ہائی کورٹ نے مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے شادی شدہ جوڑے کے بیانِ حلفی اور درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ عدالت نے بھارتی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس سے کہا ہے کہ وہ میاں بیوی کو تحفظ فراہم کرے۔

تاہم عدالتی حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر درخواست گزاروں میں سے کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے، تو پولیس قواعد کے تحت تحقیقات کو آگے بڑھا سکتی ہے اور اسے منطقی انجام تک پہنچا سکتی ہے۔

ملزم کے وکیل محمد اسماعیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسکول ریکارڈ کے مطابق لڑکی، جس نے اب اپنا نام صومیہ کوثر رکھا ہے، کی عمر لگ بھگ 22 برس ہے جب کہ قانون کے مطابق بالغ قرار دینے کی عمر کی حد 18 برس ہے۔

اُن کے بقول بھارتی پنجاب اور ہریانہ ریاستوں کے مشترکہ ہائی کورٹ نے رواں برس فروری میں مسلمان لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر سے متعلق ایک اہم فیصلہ سنایا تھا جس کے مطابق مسلم لڑکی 18 برس سے کم عمر ہونے کے باوجود کسی بھی پسند کے لڑکے سے شادی کر سکتی ہے، بشرط یہ کہ وہ حیض کی عمر کو پار کر چکی ہو۔

گویا کہ 14 یا 15 برس سے زیادہ عمر کی مسلم لڑکی اپنی پسند کی شادی کرنے کے لیے آزاد ہے اور اس کے خاندان والے کسی طرح کی مداخلت نہیں کر سکتے۔

محمد اسماعیل نے دعویٰ کیا کہ "اس خاتون کی عمر 22 برس ہے جیسا کہ اس کے اسکول کے ریکارڈ سے تصدیق ہوتی ہے۔ اس نے اپنی مرضی کے مطابق اپنی پسند کے مرد سے شادی کرنے کے لیے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔"

'بالغ جوڑے کے انفرادی فیصلے کو سیاسی تنازع نہ بنایا جائے'

لداخ کے ممتاز سیاسی کارکن سجاد کرگلی نے کہا کہ خطہ لداخ میں تبدیلیٔ مذہب اور بین المذاہب شادیاں عام ہو چکی ہیں۔

اُن کے بقول "ہمارے پاس کئی ایسی مثالیں ہیں جن میں ماضیٔ قریب میں مسلم لڑکیوں نے بھی بودھ مت اختیار کیا اور بودھ مت لڑکوں سے اپنی مرضی سے شادی کی۔ اس طرح کے واقعات پر جن کو قانونی منظوری حاصل ہے سیاست نہیں کی جانی چاہیے اور نہ ہی انہیں فرقہ وارانہ تقسیم کا باعث بننے دینا چاہیے۔"

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG