رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں 32 برس سے بند سنیما گھر کھولنے کی تیاریاں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے حکام گزشتہ 32 برس سے بند پڑے سنیما گھروں کو دوبارہ کھولنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ سنیما گھر بھارتی کشمیر میں مسلح جدوجہد کے آغاز کے بعد سے بند پڑے ہیں۔

حکام پراُمید ہیں کہ سنیما گھر دوبارہ کھلنے سے بھارتی کشمیر کی نوجوان نسل کو تفریح کی سہولیات میسر آئیں گی اور اس سے یہ بھی ثابت ہو گا کہ وادی میں حالات اب بہت بہتر ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نےحال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ "حکومت جموں و کشمیر میں نہ صرف سنیما گھروں کو دوبارہ کھولنے کے بارے میں سنجیدہ ہے بلکہ اس جنتِ نظیر کہلائے جانے والے خطے میں فلم بندی کے سنہری دور کو لوٹانے کے لیے پر عزم ہے

وادیٔ کشمیر میں ملٹی پلکسز تعمیر کرنے کا اعلان

جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے حال ہی میں بنائی گئی نئی فلم پالیسی کے تحت علاقے میں فلم انڈسٹری کو بڑھاوا دینے کے لیے ایک فلم ڈیولپمنٹ کونسل قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

کونسل کو حاصل اختیارات میں 70 لاکھ آبادی والی وادیٔ کشمیر میں 32 برس سے بند پڑے سنیما ہاؤسز کو دوبارہ چالو کرنا اور نئے سنیما ہال اور ملٹی پلکسز تعمیر کرانا، فلمی میلے منعقد کرنا وغیرہ شامل ہے۔

بھارتی کشمیر میں اس عرصے کے دوران سنیما گھر کھولنے کی کوششیں کی گئیں جو کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔
بھارتی کشمیر میں اس عرصے کے دوران سنیما گھر کھولنے کی کوششیں کی گئیں جو کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔

حکومت کی حوصلہ افزائی اور بعض رعایات اور مراعات کے اعلان کے بعد دارالحکومت سری نگر میں پہلا ملٹی پلکس تعمیر کیا جا رہا ہے۔

ملٹی پلکس کے شریک مالک وجے کمار دھر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ملٹی پلکس تقریباً تیار ہے۔ ہم اسے چالو کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی باضابطہ اجازت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو کئی طرح کی محرومیوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ کم سے کم انہیں تفریح کے بہتر مواقع تو فراہم کیے جائیں جو ان میں پائے جانے والے تناؤ کر کم کر سکیں۔"

وجے دھر نےجو سری نگر میں ایک بڑا اسکول بھی چلا رہے ہیں مزید کہا کہ "ہمارا بچوں اور بچیوں کے ساتھ روز ہی رابطہ رہتا ہے۔ لہذٰا ہمیں معلوم ہے وہ کیا چاہتے ہیں۔"

وادی میں سنیما کب اور کیوں بند کرائے گئے؟

وادیٔ کشمیر میں نوے کی دہائی میں مسلح تحریکِ مزاحمت کے آغاز پر عسکریت پسندوں نے تمام سنیما گھروں، شراب کی دکانوں، بیوٹی پارلرز اور تفریحی کلبوں کو زبردستی بند کروایا تھا۔

'اللہ ٹائیگرز' نامی ایک مبینہ عسکری تنظیم جو اس سلسلے میں سب سے زیادہ متحرک نظر آئی تھی کا استدلال تھا کہ ایک ایسے موقع پر جب کشمیری نوجوان آزادی اور قومی بقا کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں سنیما ان میں اور پوری آبادی میں خلفشار کا موجب بن سکتا ہے۔

سری نگر کا تاریخی سنیما گھر اب انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
سری نگر کا تاریخی سنیما گھر اب انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔

بعد میں شورش کو دبانے کی غرض سے بھارت کے مختلف علاقوں سے کشمیر لائی گئی بھاری تعداد میں اضافی پولیس فورسز اور نیم فوجی دستوں نے انہیں عارضی بیرکوں کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ جب کہ دوسرے سینما گھر یا تو خستہ حالت میں بند پڑے ہیں یا پھر انہیں اسپتالوں یا تجارتی مراکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

سنیما گھر کھولنے کی ناکام کوششیں

سن 1996 میں ریاست میں کرائے گئے عام انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی نیشنل کانفرنس کی حکومت نے جس کی قیادت ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کر رہے تھے سنیما گھروں کو دوبارہ چالو کرانے کی کوشش کے طور پر ان کے مالکان کو مالی مراعات اور سیکیورٹی کی پیش کش کر دی جسے صرف دو یا تین نے قبول کیا تھا۔

ان میں سری نگر کے سونہ وار علاقے میں واقع براڈوے تھیٹر بھی شامل ہے جس کے شریک مالک وجے دھر کا کہنا ہے "حکومت کی اس پیش کش کا مقصد اور اسے قبول کرنے کے پیچھے منطق یہی تھی چوں کہ سنیما رابطے اور تفریح کا ایک طاقت ور ذریعہ ہے کشمیریوں بالخصوص نوجوان نسل کو اس سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے۔"

سن 1998 کے آس پاس سری نگر کے تین سینما گھر کھل بھی گئے تھے لیکن ان میں سے ایکریگل کے صدر دروازے پر مشتبہہ عسکریت پسندوں نے عین اُس وقت دستی بم کا دھماکہ کر دیا جب شائقین بالی ووڈ فلم کا شو دیکھنے کے بعد باہر آ رہے تھے۔ اس واقع میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد خود حکومت نے سنیما گھروں کو تا حکمِ ثانی بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

سنیما گھروں کو یکسر بند کرنا غلط تھا

اب 21 برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد سنیما گھروں کو دوبارہ چالو کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے معروف فلم اور تھیٹر کی شخصیت مشتاق علی احمد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ سنیما گھروں کو یکسر بند کرنے کا فیصلہ ہی غلط تھا۔

اُن کے بقول میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن میری یہ رائے ہے کہ سنیما گھروں کو یکسر بند کرنا غلط تھا۔ ان سنیما گھروں میں دکھائی جانے والی فلموں کے کنٹنٹ (مواد) کا جائزہ لیا جا سکتا تھا اور جو فلمیں ہماری ثقافت، روایات اور اقدار سے میل نہیں کھاتی تھیں انہیں لوگوں کو نہیں دکھایا جاتا۔"

انہوں نے کہا کہ ان کی طرف سے تھیٹر اور سنیما کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششوں کو جن میں کچھ عرصہ پہلے ان کی طرف سے سری نگر کے ٹیگور ہال میں ایک فلم فیسٹول کا انعقاد بھی شامل ہے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بالخصوص شائقین فلم نےخوب سراہا ہے۔

'سنیما گھر کھولنے کے بجائے لوگوں کی مشکلات کم ہونی چاہئیں'

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ وادی میں سنیما گھروں کو کھولنے یا نئے سنیما گھر تعمیر کرنے یا کرانے کے بجائے حکومت کی ترجیح لوگوں کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کی کوششیں ہونی چاہیے۔

ایک شہری نذیر احمد شاہ نے کہا کہ "اگر آپ سری نگر اور دوسرے شہروں کی بات کریں تو ان میں عوامی سہولت کی کمی ہے، پینے کا صاف پانی ہر جگہ دستیاب نہیں، پارکنگ کے مسائل ہیں۔ لہذٰا حکومت ان کاموں پر پہلے توجہ دے۔"

مذہبی جماعتیں بھی ظاہری وجوہات کی بنا پرسنیما کھولنے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ لیکن مشتاق علی کہتے ہیں "اب انٹرنیٹ کی بدولت سبھی لوگوں کو یو ٹیوب جیسی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے۔ اگر وہ وہاں فلمیں دیکھ سکتے ہیں تو سنیما گھر میں دیکھنے میں کیا قباحت ہے۔؟"

تاہم بعض معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ وادی میں سینما گھروں کو دوبارہ کھولنا اگر ناممکن نہیں مشکل ضرور ہے کیون کہ کیبل اور ڈش ٹی وی اور انٹرنیٹ کی وساطت سے دستیاب درجنوں فلمی اور دوسری تفریحی چینلز نے سینما گھروں کی اہمیت کم کر دی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG