رسائی کے لنکس

پاکستان: ٹیکس ریٹرنز میں 40 فی صد کمی کیوں ہوئی ہے؟


پاکستان میں ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے لئے آخری تاریخ یعنی 8 دسمبر تک تقریبا 18 لاکھ افراد نے ٹیکس ریٹرن جمع کرائے جس سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس جمع ہو سکا۔

اس تعداد کے پیش نظر ٹیکس دینے والوں کی تعداد سال 2019 کے مقابلے میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔

ٹیکس معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ سال ٹیکس جمع کرانے کی مہلت مارچ 2020 تک تھی جس کی بناء پر 29 لاکھ 80 ہزار سے زائد افراد نے اپنی آمدنی کی تفصیلات ایف بی آر کو جمع کرائی تھیں۔

لیکن ان کے خیال میں ملک میں ٹیکس جمع کرانے والوں کی تعداد اب بھی کم ہے۔

ٹیکس معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق انکم ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے والوں کی تعداد میں کمی جہاں کرونا وبا کے باعث سست روی کی شکار معیشت کے لئے ایک اور دھچکہ ثابت ہو گی وہیں ان کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی تحریک انصاف کی حکومت کے لئے بھی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

حکومت ٹیکس نظام میں اصلاحات اور پھر اس کے نتیجے میں ٹیکس نیٹ میں اضافے کا وعدہ لے کر اقتدار میں آئی تھی۔

"ٹیکس اصلاحات کے نفاذ میں سیاسی عزم کی کمی حائل ہے"

ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن کے بقول اس کی بنیادی وجہ ایف بی آر میں اصلاحات کا نہ ہونا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اصلاحات کے نفاذ کے لئے سب سے پہلے تو آپ کے پاس اس مقصد کے لئے عوامی مینڈیٹ ہونا ضروری ہے۔ لیکن صرف مینڈیٹ ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اقتدار میں آ کر پھر ان ٹیکس اصلاحات کو نافذ کرنے کے لئے سیاسی عزم بھی ضروری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس اصلاحات کا نفاذ کرنا ہے یا نہیں،اس پر سیاسی عزم نظر نہیں آتا ۔ ایسا ہونے پر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ اس مقصد کے لئے کرپشن پر مکمل قابو پانا بھی بے حد ضروری ہے، جس کے ذریعے ٹیکس چوری کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔ لیکن بد عنوانی پر صفر رواداری رکھنا سب کے لئے ہونا چائیے۔ ایسا کرنے ہی سے لوگوں کو ٹیکس دینے کا رحجان بڑھے گا اور ٹیکس چوری کا رحجان کم ہو گا۔

"ٹیکس ادا کرنے والے اور ٹیکس جمع کرنے والے ادارے میں اعتماد کا فقدان ہے"

معروف ٹیکس ماہر اور بیکر ٹلی پاکستان کے ڈائریکٹر علی اے رحیم کے مطابق ٹیکس گزاروں اور ٹیکس جمع کرنے کے ادارے یعنی فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں اب بھی اعتماد کا فقدان ہے۔ کیونکہ اگر فائلر بننے کی صورت میں ملنے والی بعض مراعات کے باوجود بھی لوگ فائلر نہیں بن رہے کیونکہ ان کے خیال میں وہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چُنگل میں پھنسنا نہیں چاہتے کیونکہ وہاں ہر شخص کے ساتھ چور کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن کے خیال میں 55 لاکھ نیشنل ٹیکس نمبر رکھنے والوں میں سے بمشکل صرف 50 فیصد ہی فعال فائلر ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ جان بوجھ کر ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کراتے۔ کیونکہ ایک بار ٹیکس نیٹ میں آنے سے ان کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔

ڈاکٹر اشفاق حسن کے خیال میں حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بجائے جو لوگ ٹیکس ادا کرنے والے ہیں انہی سے ہی مزید ٹیکسز کا بوجھ ڈالا دیتی ہے۔ ان کے خیال میں یہی بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے لوگ ٹیکس نیٹ میں آنا ہی نہیں چاہتے۔

علی اے رحیم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت اس وقت کئی سیاسی مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ریونیو بڑھانے پر پوری طرح توجہ نہیں دے پا رہی۔ ان کے خیال میں ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ جب تک ان اختیارات کو کم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک تاجر حضرات کا اطمینان اور اعتماد پیدا نہیں ہوسکتا۔

"ٹیکس ریٹرنز جمع کرنے کے لئے دئیے گئے وقت میں اضافہ ضروری تھا"

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر اشفاق حسن کے خیال میں ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع ضروری تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس تاریخ میں کم از کم 31 دسمبر تک توسیع لازمی کرنا چائیے۔ اگر ایف بی آر ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کر دیے تو مزید لوگ ریٹرن جمع کرایں گے۔

انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے میں ایک اہم مسئلہ کرونا وباء سے پیدا شدہ بُرے معاشی حالات بھی ہیں۔ ایسے میں ٹیکس جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع ناگزیر تھی۔

ایک اور ٹیکس ماہر اور بیکر ٹلی پاکستان میں ڈائریکٹر علی اے رحیم کے مطابق ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع نہ ملنے پر لوگوں میں تذبذب پایا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ جنہوں نے حتمی تاریخ تک ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے یا اسے جمع کرانے کے لئے درخواستیں بھی نہیں دی، انہیں اب بھاری جرمانوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

"ٹیکس جمع نہ کرانے والوں کے خلاف ایکشن ناگزیر ہے"

ڈاکٹر اشفاق حسن کے بقول جو لوگ حتمی تاریخ تک بھی ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کراتے تو ان کے خلاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو کوئی قانونی ایکشن بھی نہیں لیتا۔ جس کی وجہ سے لوگ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔

"ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کا نظام اب بھی پیچیدہ ہے"

ڈاکتر اشفاق حسن کے مطابق ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کے لئے کئی ہفتے لگتے ہیں۔ یہ اب بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اب بھی جو ٹیکس ریٹرن فارم دیا گیا ہے وہ مشکل بھی ہے، پیچیدہ بھی اور لمبا بھی۔ان کے خیال میں اس فارم کو بھرنا اب بھی ایک ڈروانے خواب کی مانند ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن کے بقول ایف بی آر میں بعض حاضر سروس ملازمین اور کچھ ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف فرمز اور لوگوں کو کنسلٹنسی سروسز فراہم کرتے ہیں۔

اگراس فارم کو سادہ کر دیا جائے تو ان لوگوں کے خیال میں ان کی آمدنی کا بڑا حصہ بند ہو جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کرنے سے ٹیکس فائلر کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔

"ٹیکس جمع کرنے میں توسیع کے لئے انتظامی اصلاحات بھی ضروری ہیں"

ڈاکٹر اشفاق حسن کے بقول ہمیں انتظامی معاملات کی جانب بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ ٹیکس اصلاحات کا نفاذ جن لوگوں کو کرنا ہے انہیں اس کی مناسب ٹریننگ دی جائے۔ اس مقصد کے لئے سول سروسز سے ایف بی آر آنے والوں کا ٹیکس نظام کو سمجھنے کاپس منظر ہونا ضروری ہے۔

اس ادارے میں میڈیکل ڈاکٹرز، ائیرکرافٹ انجینئیرز اور دیگر غیر متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی جگہ نہیں ہونا چائیے۔ بلکہ ایسے لوگ جو اس عہدے کے لئے اہل اور حقدار ہوں، وہی وہاں تعینات کئے جائیں۔ ٹیکس اتھارٹی کو اسپیشلائزڈ فیلڈ بنا کر اس کے امتحانات بھی الگ سے لئے جائیں اور ان میں انہی لوگوں کو شرکت کی اجازت ہوجن کے پاس معاشیات، بزنس ایڈمنسٹریشن، پبلک ایڈمنسٹریشن ، پبلک پالیسی، کامرس، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ، کاسٹ اکاؤنٹنٹ یا قانون کی ڈگری ہے۔

قابل ٹیکس آمدن رکھنے کے باوجود ٹیکس نہ ادا کرنے والوں کی نشاندہی ہوچکی ہے؛ ایف بی آر

تاہم ایف بی آر حکام کے مطابق ایسے 10 لاکھ افراد کی نشاندہی کی جا چکی ہے جو قابل ٹیکس آمدن رکھنے کے باوجود بھی ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔

اسی طرح 35 لاکھ لوگ ایسے ہیں جو نیشنل ٹیکس نمبر رکھتے ہیں اور وہ قانون کے تحت ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہیں۔ جب کہ 74 لاکھ ایسے لوگوں کی نشاندہی کی گئی جن کا ود ولڈنگ ٹیکس تو کاٹا جا رہا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک اپنے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔

حکام کے مطابق ملک میں ایک لاکھ سے زائد کمپنیز رجسٹرڈ ہیں، لیکن 50 ہزار سے زائد کمپنیاں ٹیکس ادا نہیں کر رہیں۔ اسی طرح 1 لاکھ 5 ہزار لوگ سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر رکھنے کے باوجود ریٹرنز جمع نہیں کرا رہے۔ ایسے لوگوں کو حکام کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر ٹیکس کی ادائیگی کریں۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے یہ بھی وضاحت جاری کی ہے کہ ٹیکس گزاروں کو توسیع شدہ تاریخ گزرنے کے بعد بھی قانون کے مطابق درخواست دینے والوں کو سالانہ انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرنے کی اجازت ہے۔ اور وہ جتنا جلد ممکن ہو اپنے ٹیکس گوشوارے داخل کریں۔

"حتمی تاریخ میں توسیع نہ کرنے کی وجہ ٹیکس ڈسپلن کو پروان چڑھانا ہے"

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعلامئے کے مطابق اس بار فائلنگ کے دوران پہلی مرتبہ سب سے زیادہ انکم ٹیکس حاصل کیا گیا ہے۔ پچھلے سال اسی عرصہ میں 17 لاکھ 30 ہزار انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے تھے جب کہ 13.5 ارب روپے انکم ٹیکس حاصل ہوا۔ اس لحاظ سے 4 فیصد زائد انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے اور 63 فیصد زائد ٹیکس اکھٹا ہوا۔ ایف بی آر کے مطابق حکومت نے 8 دسمبر 2020 کے بعد تاریخ میں توسیع نہیں کی جس کا بنیادی سبب ٹیکس گزاروں کا آخری تاریخ پر اعتماد بحال کرنا ہے تاکہ ٹیکس ڈسپلن کو پروان چڑھایا جا سکے۔

تاہم حکام کے مطابق ٹیکس گزاروں کی سہولت کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ان میں چیف کمشنرز آئی آر کی طرف سے قانون کے تحت ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں فراخدلانہ توسیع، آن لائن طریقے سے توسیع حاصل کرنے کی درخواست کے ساتھ دستی درخواست کی بھی اجازت، ٹیکس ایڈوائزرز کو ایک درخواست پر کئی ٹیکس گزاروں کو توسیع کی سہولت اور چیف کمشنرز کی طرف سے دستی درخواستوں کی وصولی اور حدود کی نشاندہی کے لئے خصوصی ڈیسک کی تشکیل شامل ہیں۔

ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے ٹیکس گزاروں نے توسیع کے لئے درخواستیں جمع کرا دی ہیں جنہیں تاریخ میں توسیع دی جا رہی ہے۔ اندازے کے مطابق 3 لاکھ ٹیکس گزاروں نے توسیع کے لئے درخواست دے دی ہے، جس سے کل تعداد 21 لاکھ تک بڑھ جائے گی جو کہ پچھلے سال اسی عرصہ کے لحاظ سے 21 فیصد زائد گوشوارے بنتے ہیں۔

ایف بی آر نے مزید یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ٹیکس گوشوارے نہ جمع کرانے اور توسیع کی درخواست بھی نہ دینے والوں کے خلاف موثر ایکشن کا آغاز بھی کر دیا جائے۔

XS
SM
MD
LG