رسائی کے لنکس

ٹرمپ کو شام میں سرگرم رہنے پر آمادہ کرلیا ہے: فرانس


صدر میخواں ٹی وی انٹرویو کے دوران جو براہِ راست نشر کیا گیا۔
صدر میخواں ٹی وی انٹرویو کے دوران جو براہِ راست نشر کیا گیا۔

اتوار کو ایک فرانسیسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر میخواں نے کہا کہ فرانس نے شام میں کردار ادا کرنے سے متعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

فرانس کے صدر ایمانوئیل میخواں نے کہا ہےکہ انہوں نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات پر آمادہ کرلیا ہے کہ وہ امریکہ کو شام میں "طویل مدت تک" کردار ادا کرنے دیں۔

اتوار کو ایک فرانسیسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر میخواں نے کہا کہ فرانس نے شام میں کردار ادا کرنے سے متعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل ہی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ شام میں تعینات امریکی فوجیوں کو اب واپس بلالینا چاہیے۔

امریکی صدر کے اس بیان پر خود ان کی انتظامیہ کے بعض اعلیٰ عہدیداران اور امریکہ کے اتحادیوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اپنے انٹرویو میں صدر میخواں نے کہا کہ محض 10 روز قبل صدر ٹرمپ یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ کو شام کے بحران سے باہر نکل آنا چاہیے۔

ان کے بقول، "لیکن اب ہم نے انہیں قائل کرلیا ہے کہ شام میں طویل عرصے تک رہنا ضروری ہے۔

اتوار کو براہِ راست نشر کیے جانے والے ایک خصوصی اور طویل ٹی وی انٹرویو میں 40 سالہ فرانسیسی صدر نے واضح کیا کہ شام پر فرانس کے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ حالیہ حملوں کو صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں سمجھنا چاہیے۔

میخواں کے دورِ صدارت میں فرانس کی بیرونِ ملک یہ پہلی بڑی فوجی کارروائی تھی جس کے دوران فرانسیسی فوج نے امریکی اور برطانوی افواج کے ہمراہ شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کی تین مبینہ تنصیبات پر میزائل فائر کیے تھے۔

انٹرویو کے دوران صدر میخواں کا کہنا تھا کہ فرانس کا حملہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں لیکن یہ حملہ شامی حکومت کو یہ پیغام دینے کے لیے ضروری تھا کہ اگر اس نے عام شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو اسے سزا بھگتنی ہوگی۔

امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے یہ حملہ دو ہفتے قبل شامی باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے دوما پر دو ہفتے قبل شامی فوج کے مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں کیا تھا جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔

شام کی حکومت اور اس کے اتحادیوں – روس اور ایران - نے ان حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔

لیکن صدر میخواں نے واضح کیا کہ بین الاقوامی قانون اس معاملے میں فرانس اور اس کے اتحادیوں کو شام میں مداخلت کی مکمل اجازت دیتا ہے۔

گو کہ ان حملوں کی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی لیکن اپنے انٹرویو کے دوران صدر میخواں نے دعویٰ کیا کہ عالمی ادارے کی جانب سے 2013ء میں منظور کی جانے والی قرارداد کے تحت شام اپنے تمام کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کا پابند تھا جو اس نے نہیں کیے۔

انہوں نے کہ ان حملوں کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے مقامات کو انتہائی درستگی کے ساتھ نشانہ بنایا گیا۔

شام پر حملے کے بعد روس کے ساتھ پیدا ہونے والی کشیدگی کے باوجود فرانسیسی صدر نے زور دیا کہ شام کے تنازع کے حل کے لیے "ہر ایک کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے۔"

انہوں نے کہا کہ شام کے خلاف کارروائی کے باوجود وہ آئندہ ماہ روس کا طے شدہ دورہ کریں گے۔

کئی گھنٹوں طویل اپنے اس انٹرویو میں صدر میخواں نے اپنے دورِ صدارت کے پہلے سال اپنی کارکردگی، داخلی چیلنجز، یورپی یونین کو درپیش مسائل اور خارجہ پالیسی پر کھل کر گفتگو کی۔

XS
SM
MD
LG