رسائی کے لنکس

پاکستان میں گیس بحران؛ گھریلو صارفین اور صنعت کار پریشان، حکومت کے دلاسے


پاکستان میں سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی گیس کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ صنعت کار ہوں یا عام شہری، سردیوں میں گیس کے کم ہوتے پریشر سے پریشان ہیں۔

سرد موسم میں گیس کی طلب بڑھنے کی وجہ سے ملک کے کئی بڑے شہروں بشمول صنعتی اور تجارتی مرکز اور سب سے بڑی آبادی والے شہر کراچی میں گیس کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے جب کہ ملکی معیشت کو الگ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے چند روز قبل اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ گیس کی کمی سے برآمدات میں اضافے کا سلسلہ رُک سکتا ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی برآمدات میں ماہانہ 30 فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت نے رواں برس کے لیے برآمدات کا ہدف 38 ارب ڈالرز مقرر کیا ہے۔

حکومت کی جانب سے مقرر کردہ برآمدات کے ہدف میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا ٹارگٹ 20 ارب ڈالرز ہے جس کا زیادہ تر دار و مدار گیس کی فراہمی پر ہے۔

ماہرین اس بات کے خدشات کا اظہار کافی عرصے سے کرتے دکھائی دے رہے تھے کہ آنے والے وقت میں گیس کا بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ گیس کے کم پریشر کی وجہ سے زیادہ تر مشینری بند پڑی ہے یا انہیں فرنس آئل اور ڈیزل پر مجبوراً چلایا جارہا ہے۔ جو تین گنا مہنگی پڑتا ہے۔

کراچی میں واقع سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ (سائٹ) انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالرشید کا خیال ہے کہ صنعتوں کو گیس کی فراہمی میں کمی کی بنیادی وجہ بد انتظامی اور طویل المعیاد پالیسی کا نہ ہونا ہے۔

ان کہنا ہے کہ گیس کی کمی سے سب سے زیادہ سائٹ کا علاقہ متاثر ہورہا ہے جو پاکستان کا سب سے پرانا صنعتی زون ہے جہاں چار ہزار سے زائد فیکٹریاں ہیں اور پانچ لاکھ سے زائد مزدور کام کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انڈسٹریز کو محض ایک سے ڈیڑھ پاؤنڈ پر اسکوئر انچ (پی ایس آئی) گیس فراہم کی جارہی ہے جب کہ اس کا معیار سات پی ایس آئی مقرر ہے۔ اس صورتِ حال میں وہ انڈسٹریز، جن میں ٹیکسٹائل سر فہرست ہے، کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔

گیس سیکٹر سے جڑے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ملک میں بالخصوص سردیوں میں گیس کی طلب کو مدنظر رکھ کر فیصلے نہیں کیے۔ جب کہ عالمی مارکیٹ میں ایل این جی کی قیمتیں بھی بڑھتی رہیں جس کی وجہ سے باہر سے منگوائی گیس نہ صرف مہنگی مل رہی ہے بلکہ ضرورت کے مطابق مل بھی نہیں رہی۔

حکومتی دعووں کے باوجود تیسرا ایل این جی ٹرمینل نہیں لگا

اس بارے میں ماہرین کا یہ بھی اعتراض ہے کہ حکومت نے رواں برس اوسطاً ہر ماہ آر ایل این جی کے 14 کے بجائے 12 کارگوز منگوائے۔ اس طرح ٹرمینلز کو ان کی استعداد سے بھی کم استعمال کیا گیا اور گیس کی خریداری میں ٹینڈر جاری کرنے میں تاخیر بھی کی گئی۔

حکومت کی جانب سے کئی دعووں کے باوجود چار سال گے دوران درآمدبڑھانے کے لیے تیسرا ایل این جی ٹرمینل نہیں لگایا جاسکا۔ جس کی وجہ سے سردیوں میں گیس کی کمی کا بحران شدید بڑھتا جارہا ہے۔

حکومت کے مطابق درآمد شدہ گیس یعنی ایل این جی کا سب سے بڑا استعمال کنندہ پاور سیکٹر ہے۔ اس کے علاوہ سیمنٹ فیکٹریز، سی این جی، فرٹیلائزر پلانٹس اور دیگر کمرشل ادارے شامل ہیں۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ گھریلو صارفین کو گیس کی کمی کا تعلق ایل این جی سے نہیں کیوں کہ ان کے بقول انہیں ایک خاص مقدار سے زیادہ ایل این جی فراہم نہیں کی جاتی اس لیے کہ وہ ملک میں موجودہ گیس کے مقابلے میں قدرے مہنگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گھریلو صارفین کو ملنے والی کم گیس کا تعلق ملک میں پیدا ہونے والی گیس کے ذخائر کی کمی سے ہے۔ اور اس کا حل یہی ہے کہ گیس کے نئے ذخائر تلاش کیت جائیں یا صارفین کو بجلی کے استعمال کی جانب راغب کیا جائے۔

حماد اظہر کے بقول گیس کی متبادل فراہمی کے لیے حکومت کوششیں کر رہی ہے۔

حکومت کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ رواں برس ایل این جی ملک میں گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ اور برقت منگوائی گئی جب کہ دوسری جانب حکومت کی جانب سے برآمدی شعبے کو موسمِ سرما میں گیس کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

توانائی امور کے ماہر اور کالم نگار علی خضر کا کہنا ہے کہ گیس بحران کی اصل وجہ مقامی طور پر پیداوار کم ہونا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک میں دس بارہ سال کے دوران گیس کی سپلائی تقریباً نصف ہوچکی ہے اور طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان کے بقول گیس بحران اور بدانتظامی کا الزام حکومت پر عائد کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت بنیادی مسئلہ گیس کی قلت کا ہے۔

علی خضر کا کہنا ہے کہ گیس کی کمی کو امپورٹ کر کے پورا کیا جاتا ہے۔ گھریلو صارفین کو گیس اگر دو ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی فراہم کی جارہی ہے تو دوسری جانب صنعتوں کو عام حالات میں چھ سے 10 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مل رہی ہے۔ موجودہ حالات میں اس کی قیمت 30 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ گئی ہے۔

ان کے خیال میں توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں گیس کی جگہ متبادل ذرائع کے استعمال کو فروغ دینا ہوگا۔ کیوں کہ پاکستان کے پاس اب گیس کم اور بجلی وافر مقدار میں دستیاب ہے۔

گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے روس کے تعاون سے 'نارتھ ساؤتھ پائپ لائن' بچھانے اور افغانستان کے راستے ترکمانستان سے گیس پائپ لائن بچھانے پر بات چیت جاری ہے۔ تاہم اب تک یہ منصوبے کاغذوں پر ہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG