رسائی کے لنکس

انتخابی کامیابی کے بعد جرمن چانسلر کے لیے نئے چیلنجز


جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل اپنے انتخابی کارکنوں کے ساتھ ۔ وہ چوتھی بار اپنے عہدے کے لیے منتخب ہوئیں ہیں۔ ستمبر 2017
جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل اپنے انتخابی کارکنوں کے ساتھ ۔ وہ چوتھی بار اپنے عہدے کے لیے منتخب ہوئیں ہیں۔ ستمبر 2017

رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی مقبولیت اس وقت بحال ہوئی جب پناہ گزینوں کے ریلےکم ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا صدارتی انتخاب جیتا۔

اینگلا مرکل جرمنی کا وفاقی انتخاب چوتھی مدت کے لیے جیت چکی ہیں اور یہ نتیجہ تین ماہ قبل انتخابی مہم کے آغاز سے ہی متوقع دکھائی دیتا تھا۔ لیکن حکمران جماعت کرسچین ڈیمو کریٹس کو توقع سے کم سیٹیں ملیں اور جرمنی کے انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔

سرکاری نتائج کے مطابق کرسچین ڈیمو کریٹس یونین یا سی ڈی یو اور بیورین میں اس کی اتحادی پارٹی، کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو نے کل 33 فیصد ووٹ حاصل کئے جس کے بعد مرکل جنگ کے بعد کے دور کے صرف ان تین چانسلرز میں سے ایک بن گئیں جو اس اہم عہدے کی چوتھی مدت کےلئے منتخب ہوئے ۔

رائے عامہ کے جائزوں میں یہ توقع ظاہر کی گئی تھی کہ سی ڈی یو / سی ایس یو 36 سے 39 فیصد تک ووٹ حاصل کریں گی۔

کرسچین سوشل یونین کی ووٹوں کی کم تر شرح اور جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی متنازع جمہور پسند پارٹی آلٹرنیٹیو فار ڈیمو کریسی کے توقع سے زیادہ ووٹ، مرخیل کے لیے جیتنے کا ایک معقول جواز بنے۔

اینگلا مرکل کا کہنا ہے کہ آنے والے ہفتے آسان نہیں ہو ں گے لیکن سی ڈی یو اور سی ایس یو ایسی جماعتیں ہیں جو ملک کے لیے، ہمارے پروگرام کے لیے، اور اس کے لیے جو ہمارے اور لوگوں کے لیے اہم ہیں، اپنی ذمہ داری سے واقف ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہم آنے والے ہفتوں میں حالات کو اپنے کنٹرول میں کر لیں گے ۔

آلٹر نیٹیو فار ڈیمو کریسی یعنی اے ایف ڈی نے قومی ووٹوں میں سے لگ بھگ 30 فیصد حاصل کئے جس سے جرمن فیڈرل کونسل بانڈسٹا میں نشستیں حاصل کرنے کے لیے درکار پانچ فیصد کی کم سے کم حد تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو گئی۔

نازی دور کے بعد سے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ قوم پرست سیاست دان جرمن پارلیمنٹ میں شامل ہوئے ہیں۔ اے ڈی ایف کے شریک لیڈر الیکزینڈر گولینڈکا کہنا تھا کہ چونکہ واضح طور پر پارٹیاں اب عام لوگوں کے احساسات کو نہیں سمجھ رہیں، کیوں کہ انہوں نے جزوی طور پر، مشترکہ طور پر ایک پالیسی بنائی جسے لوگ اب نہیں پسند کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ملک میں اس انداز کی تبدیلی آئے جس میں ہم پر غیر ملکیوں کی بڑی یلغار ہوں اور وہ برسوں تک زیرو انٹریسٹ پالیسی نہیں چاہتے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب لوگوں نے جو بالکل نظر انداز ہو رہے تھے، اس بار مقابلہ کیا ہے۔

جرمنی میں کچھ حلقوں نے اے ڈی ایف پارٹی کے ابھرنے کا إلزام بالواسطہ طور پر مرکل پر عائد کیا ہے جو 2015 میں اس وقت تک سیاسی منظر نامے سے غائب دکھائی دیتی تھی جب تک مرخیل نے مشرق وسطی سے جنگ کے پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھولنے کی پالیسی ا نہیں اپنائی تھی۔

مز مرکل کی سیاسی حیثیت اس وقت بہت ٕ مخدوش دکھائی دیتی تھی جب ملک امیگریشن سےمتعلق ان کی پالیسی کے خلاف ہو رہا تھا اور جنوبی یورپ میں قرضے کے بحران اور جرمنی میں بڑھتے ہوئے سماجی عدم مساوات سے نمٹنے کے ان کے انداز پر برہمی میں اضافہ ہو رہا تھا۔

رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی مقبولیت اس وقت بحال ہوئی جب پناہ گزینوں کے ریلےکم ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا صدارتی انتخاب جیتا۔

مرکل کی سب سے اہم مد مقابل اعتدال پسند بائیں بازو کی جماعت، سوشل ڈیمو کریٹس نے، سبکدوش ہونے و الے حکمران اتحاد کی ایک چھوٹی شراکت دار تھی ، صرف 20.5 ووٹ حاصل کیے جو جنگ کے بعد اس کی جماعت کی طرف سے حاصل ہونے والے کم ترین ووٹ ہیں۔

مرکل اب بحال ہونے والی اور آزاد مارکیٹ کی حامی جماعت، فری ڈیموکریٹس کے ساتھ، جو 2013 میں فیڈرل کونسل بانڈسٹا میں کوئی ایک بھی نشست نہیں جیت سکی تھی لیکن اتوار کے انتخاب میں کامیابی حاصل کر چکی ہے، اور گرین پارٹی کے ساتھ مل کر ایک اتحادی حکومت کی تشکیل کے لیے گفت و شنید کا آغاز کریں گی۔

XS
SM
MD
LG