رسائی کے لنکس

مشال قتل کیس کی منتقلی پر اعتراض نہیں، صوبائی حکومت


وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ چونکہ قتل کا واقعہ مردان میں رونما ہوا ہے اور ملزمان میں با اثر افراد بھی شامل ہیں لہذا اقبال خان مردان میں خطرہ محسوس کرتے ہیں۔

خیبر پختونخواحکومت نے ایڈوکیٹ جنرل کے ذریعے پشاور ہائی کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ اسے مشال خان قتل کے مقدمے کی سماعت مردان سے کسی اور جگہ منتقل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔

ایک روز قبل چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰ آفریدی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسف زئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ مقدمے کی سماعت مردان کے بجائے ہری پور سینٹرل جیل منتقل کرنے سے متعلق مقتول مشال خان کے والد اقبال خان کی درخواست پر صوبائی حکومت کا موقف واضح کریں۔

ایڈوکیٹ جنرل نے جمعرات کو عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت کو مقدمے کی سماعت ہری پور سنٹرل جیل میں کرنے پر کوئی اعتراض نہیں جس کے بعد عدالت نے حکومت کو مقدمے کا ریکارڈ آئندہ سماعت پر جمع کرانے کاحکم دیدیا ہے۔

مشال خان کے والد اقبال خان کی طرف سینئر وکیل لطیف آفریدی عدالت میں پیش ہوئے۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے لطیف آفریدی نے کہا کہ چونکہ قتل کا واقعہ مردان میں رونما ہوا ہے اور ملزمان میں با اثر افراد بھی شامل ہیں لہذا اقبال خان مردان میں خطرہ محسوس کرتے ہیں۔

لطیف آفریدی نے کہا کہ قتل کے اس واقعے کے بعد مردان میں بعض افراد نے ایک مذہبی تنظیم بنائی ہے جس کا بظاہر مقصد ان کے بقول صرف اس مقدمے پر اثر انداز ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی بنیاد پر مشال کے اہلِ خانہ مقدمے کی سماعت مردان سے ہری پور جیل منتقل کرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں انصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوسکے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے 23 سالہ طالب علم مشال خان کو توہین رسالت کے الزام میں ساتھی طلبہ اور یونیورسٹی ملازمین کے ایک ہجوم نے 13 اپریل کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔

حکومت نے قتل کی تحقیقات کے لیے قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی تھی جس نے اپنی تحقیقات کے بعد مشال خان کے خلاف توہین رسالت کے الزامات کوغلط قرار دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG