رسائی کے لنکس

ریٹیلرز سے ٹیکس وصولی کا فیصلہ واپس لینے کے بعد پاکستان میں نئے ٹیکسز کی تیاریاں


پاکستان کی حکومت رواں مالی کا پہلا منی بجٹ صدارتی آرڈیننس کی شکل میں پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ کئی حکومتی رہنماؤں نے تصدیق کی ہے کہ یہ بجٹ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے قبل منظور کرا لیا جائے گا۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے چھوٹے دکان داروں کو فکسڈ ٹیکس کی مد میں چھوٹ دیے جانے کے بعد اب دیگر ذرائع سے ٹیکس محصولات میں اضافے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

گزشتہ ماہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے بعد حکومت پاکستان کو امید ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی ساتویں اور آٹھویں قسط اس ماہ کے آخر یا ستمبر کے شروع میں ایک ساتھ جاری کر دے گا جو تقریبا 1.17 ارب ڈالر کی رقم بنتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ منی بجٹ اس لیے بھی پیش کرنا ضروری ہو چکا ہے جب حکومت نے گزشتہ ہفتے ریٹیل سیکٹر کے طاقت ور تاجروں پر لاگو کیا جانے والا فکس ٹیکس واپس لینے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت حکومت کو اس سال تقریباً 42 ارب روپے کی آمدن کی توقع تھی۔

لیکن فکس ٹیکس کے خلاف تاجروں نے شدید احتجاج کیا تھا اور ہڑتالوں کی بھی دھمکی دی تھی جب کہ دوسری جانب یہ ٹیکس بجلی کے بلوں میں شامل کرکے وصول کرنے کی صورت میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں بھی کمی واقع ہوئی تھی۔

ریٹیل سیکٹر ملک کی مجموعی معاشی آمدنی یعنی جی ڈی پی میں تقریباً 20 فی صد کا حصہ ڈالتا ہے لیکن اس شعبے سے ٹیکس جمع کرنے کی شرح تاریخی طور پر انتہائی کم رہی ہے۔ یہ ملک میں معیشت کا تیسرا بڑا شعبہ ہے جہاں افرادی قوت کے تقریبا 15 فی صد افراد کو روزگار ملا ہوا ہے۔

لیکن حکومت اس شعبے سے وابستہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں بڑی حد تک ناکام ہی رہی ہے۔ اور ان میں سے زیادہ ترغیر رجسٹرڈ تاجر ہیں جو براہ راست ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال میں بھی ریٹیل سیکٹر سے صرف چھ ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کیا گیا تھا۔


"فکس ٹیکس ختم کرنے کا بوجھ پہلے سے ٹیکس دینے والے ہی اٹھائیں گے"

اگرچہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے دعویٰ کیا تھا کہ ریٹیل سیکٹر سے بجٹ میں اعلان کردہ فکس ٹیکس وصول نہ کرنے سے حکومت کو اس مد میں حقیقی طور پر صرف 7 ارب روپے کی آمدنی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ آئندہ منی بجٹ میں تقریباً 55 سے 60 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانا چاہتی ہے۔

پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں محقق اور تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کا خیال ہے کہ محصولات کی یہ کمی تمباکو، چینی کی صنعتوں اور دیگر شعبوں سے پوری کی جائے گی جو پہلے ہی ٹیکسز کے بہت زیادہ بوجھ سے دبے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت آئی ایم ایف سے یہ کہتی ہے کہ ہم یہ کمی ٹیکس نیٹ بڑھا کر پورا کرلیں گے تو ان کے خیال میں آئی ایم ایف یہ تجویز نہیں مانے گا کیونکہ حکومت کا ٹریک ریکارڈ یہ رہا ہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے اور اس میں مزید لوگوں کو شامل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یوں فکس ٹیکس کی مد میں آنے والی کمی کو پورا کرنے کا بوجھ بھی پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں اور افراد پر آئے گا۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 22 کروڑ 70 لاکھ سے زائد آبادی والے ملک میں محض 32 لاکھ افراد اور ادارے ٹیکس ریٹرن جمع کراتے ہیں جب کہ ملک میں جمع ہونے والے ٹیکس اور مجموعی قومی معیشت یعنی جی ڈی پی کا تناسب محض 9.2 فی صد ہے جو کہ دنیاہی نہیں بلکہ علاقائی ممالک کی اوسط سے بھی کافی کم ہے۔ ماضی میں بھی ریٹیل اور زرعی شعبے کوٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔جو مشترکہ طور پر جی ڈی پی کا تقریبا 40 فی صد بنتے ہیں۔

سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کو ریونیو کے اہداف کو پورا کرنے کی گارنٹی دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے حکومت کو یہ کام آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے پہلے ہی کرنا ہوگا جو اس ماہ کی 29 تاریخ کو ہونا ہے۔تبھی امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کو قرض کی منظوری فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ سے بھی مل جائے گی۔

اس بارے میں خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ حکومت نے فی الحال کھاد کے شعبے پر ٹیکس بڑھانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے،تاہم صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سگریٹ اور تمباکو کے پتوں کی پروسیسنگ پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کرکے تمباکو کے شعبے سے 12 ارب روپے اور تمباکو کی گرین لیف تھریشنگ پراسیس (جی ایل ٹی پی) پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے ذریعے مزید 6 ارب روپے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جب کہ چینی کی صنعت پر بھی مزید ٹیکس لاگو کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔


روپے کی قدر میں کچھ بہتری لیکن زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی

ادھر 2 اگست کو آئی ایم ایف کی جانب سے مثبت جواب آنے کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری کا سلسلہ جاری ہے اور انٹر مارکیٹ میں پاکستانی روپیہ جمعے کے روز ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 3 روپے 36 پیسے سستا ہوکر 215 روپے 25 پیسے کا ہوگیا ہے۔

رواں ہفتے میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً 8 روپے 79 پیسے کی کمی آ چکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس گرواٹ کی اصل وجہ آئی ایم ایف کی جانب سےقرض ملنے کی راہ ہموار ہونے کے ساتھ یہ امید بھی ہے کہ دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں سے بھی قرضوں اور امداد کا رُکا ہوا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔

لیکن دوسری جانب ملک کے مرکزی بینک نے جمعرات کے روز بتایا ہے کہ اس کے ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران 555 ملین ڈالر کی مزید اور بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔ یوں بینک دولت پاکستان کے پاس اب صرف 7 ارب 83 کروڑ ڈالر کےغیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر رہ گئے ہیں۔

مرکزی بینک کا مزید کہنا تھا کہ اس کمی کی بڑی وجہ واجب الاداقرضوں کی ادائیگی تھی تاہم بینک نے امید ظاہر کی ہے کہ قرضوں کی مزید ادائیگی اس ماہ کے اگلے تین ہفتوں میں اعتدال پر آجائے گی۔ جبکہ حقیقت میں اگست میں واجب الادا ادائیگیوں کا تین چوتھائی پہلے ہفتے ہی میں ادا کی جانی تھیں۔

XS
SM
MD
LG