رسائی کے لنکس

گلالئی کے سیاسی ایکٹیوزم پر اسٹیبلشمنٹ مجھے سبق سکھانا چاہتی تھی: پروفیسر اسمٰعیل


پروفیسر اسمٰعیل اور ان کی اہلیہ۔
پروفیسر اسمٰعیل اور ان کی اہلیہ۔

’گزشتہ تین سالوں میں ہمارے دوست احباب اور رشتہ داروں پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ انہوں نے ہمارے گھر آنا چھوڑ دیا۔ پولیس کے پوچھنے پر وہ ڈر کے مارے ہم سے لاتعلقی کا اظہار کر دیتے تھے،” یہ کہنا ہے سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر محمد اسماعیل کا جنہیں حال ہی میں پشاور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردوں کی معاونت اور ریاست کے خلاف بغاوت کرنے کے الزامات سے باعزت بری کر دیا ہے۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پروفیسر اسماعیل اور ان کی اہلیہ کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے اس لیے عدالت انہیں بری کرتی ہے۔

وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ”دہشت گردی اور بغاوت اور غداری کا مقدمہ چل رہا تھا جس کے خلاف میں نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیل کر رکھی تھی۔ اکتوبر 2019 میں جب میں ہائی کورٹ سے باہر نکلا تو مجھے اغوا کر لیا گیا۔ جس کے بعد مجھے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ سائبر کرائم کی پولیس نےرپورٹ درج کر کے مجھے ایک ماہ کے لیے جیل بھیج دیا۔ "عام عدالت سے تو نہیں لیکن چیف جسٹس پشاور نے مجھےمشروط ضمانت دی۔”

سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے والدین جنوری 2021 سے لے کر اب تک تقریباً 167 مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

والدین کا کہنا ہے کہ ان پر بننے والے کیسز کی وجہ ان کی بیٹی گلالئی اسماعیل کا سیاسی ایکٹیوزم تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر احسان اللہ احسان جیسےدہشت گردی کرنے والوں کو تو صاف راستہ دیا گیا اور جو دہشت گردی کے خلاف بات کرتے ہیں انہیں ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں سبق دینا چاہتی تھی کہ “اگر تمہارے بچے انسانی حقوق کے لیے ایکٹیوزم کریں، یا ایسی سیاسی سرگرمی کریں جس میں بنیادی حقوق کی بات ہو، جس میں مظالم اور آئین کی خلاف ورزی کو چیلنج کیا جائے، تو ایسے میں اگر بچے ریاست سے بچ بھی جائیں تو پھر ان کے والدین کو مثال بنایا جائے گا‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’جب گلالئی باہر چلی گئی، اداروں اور ایجنسیوں کی حدود سے نکل گئی، تو انہوں نے میرے اور میری بیوی کے خلاف مقدمات بنانا شروع کر دیے۔‘‘

پاکستان میں تاریخ دان، مصنف اور سماجی کارکن عمار علی جان کا کہنا ہے کہ برطانوی دور سے رائج غداری کے ان قوانین کا مقصد ہی یہی تھا کہ جو شخص بھی حکومت یا اداروں پر تنقید کرے تو اس کی تنقید کو نہ صرف دشمنی بلکہ ملک کے خلاف سازش سے جوڑ دیا جائے۔ یہ رویہ غیر جمہوری ہے، اور جب ریاست جھوٹا الزام لگاتی ہے تو شہریوں کی زندگی کا ہر پہلو متاثر ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا “مجھ پر بھی غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ مجھے نوکریوں سے نکالا گیا ۔ گلالئی کے بوڑھے والدین کے ساتھ تو بہت ہی برا ہوا۔ لیکن ان کا باعزت بری ہونا یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اگر آپ سچ پر ڈٹے رہیں تو آپ پروفیسر اسماعیل کی طرح سرخرو ہوں گے۔ رکن پارلیمنٹ علی وزیر کو بھی بالآخر رہا کرنا پڑا ۔”

خیال رہے جنوبی وزیرستان کے ایم این اے اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما علی وزیر کو دو سال سے زائد قید کے بعد حال ہی میں کراچی کی سینٹرل جیل سے رہا کیا گیا ہے۔

علی وزیر بغاوت کے مختلف مقدمات میں گرفتار ہونے کے بعد 31 دسمبر 2020 سے کراچی کی جیل میں بند تھے۔

علی وزیر کی رہائی کے لیے پی ٹی ایم مسلسل احتجاج کرتی رہی، جو پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں میں پشتون عوام کے حقوق کی وکالت کر رہی ہے۔ پی ٹی ایم کا الزام ہے کہ ریاست پشتونوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مصروف ہے، جس میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔

'ہٹ لسٹ میں نام شامل ہونے پر پاکستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:44 0:00

سی ٹی ڈی نے 6 جولائی 2019 کو درج کی گئی پہلی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) میں گلالئی اور اس کے والدین پر فرد جرم عائد کی تھی۔ گزشتہ سال جولائی میں اے ٹی سی نے عبوری چالان (چارج شیٹ) کی بنیاد پر گلالئی اور اس کے والدین پر فرد جرم عائد کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ استغاثہ کی جانب سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

اس کے بعد سی ٹی ڈی نے مکمل چارج شیٹ جمع کرائی اور مزید دستاویزات پیش کیں، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ملزمان نے دہشت گردوں کو اسلحہ اور ایک کار فراہم کی تھی جو 2013 میں پشاور کے آل سینٹس چرچ اور 2015 میں حیات آباد کی امامیہ مسجد پر حملوں میں استعمال ہوئی تھی۔

جس کے بعد عدالت نے گلالئی کے والدین پر بغاوت، ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے اور 30 ستمبر 2020 کو آل سینٹس چرچ اور امامیہ مسجد پر حملوں میں سہولت کاری سمیت متعدد الزامات پر فرد جرم عائد کر دی۔

اس سلسلے میں گلالئی کی والدہ کا کہنا تھا “میرا بیٹی کے ادارے سے کوئی واسطہ رہا ہی نہیں ۔نہ میں اس کے دفتر میں کام کرتی ہوں۔ بس میں تو گھر کی عورت ہوں۔ اس کے لیے بس چائے وغیرہ بناتی ہوں۔ بچوں کی خاطر سب کچھ کرتی ہوں۔ میں تو بس گلالئی کی ماں ہوں۔‘‘

سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے ایک نابالغ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر اس کے قتل کے خلاف ایک مظاہرے میں تقریر کی۔ جس کے بعد اسلام آباد نے الزام لگایا کہ اس تقریر کے دوران انہوں نے ریاستی اداروں کو بدنام کیا اور تشدد پر اکسایا اور مقدمہ درج کر لیا گیا۔ جس کے بعد مئی 2019 میں وہ روپوش ہونے پر مجبور ہوگئیں۔ گلالئی اسماعیل پاکستانی فوج کی سیاست میں مداخلت اور فوجی آپریشنز میں شہریوں اور بالخصوص خواتین کے حقوق کی پامالی پر کھلے عام تنقید کرتی آئی ہیں۔

پاکستان میں اپنے والدین کے باعزت بری ہونے کے موقع پر وائس آف امریکہ سے بات کرنے ہوئے انہوں نے کہا “میرے والدین بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ تقریباً 70 سال کے ہیں۔ میں نہیں چاہتی تھی وہ آخری عمر میں اپنے پیاروں سے جدا ہو کر، کسی تھانے میں جھوٹے الزامات میں گزاریں۔ مجھے خوف تھا کہ اپنے والدین کو شاید دوبارہ نہ دیکھ سکوں، انہیں دوبارہ گلے نہ لگا سکوں۔”

اس سلسلے میں مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا “اس طرح کا مسلسل ظلم لوگوں کے اعصاب کو توڑ سکتا ہے لیکن میں جانتی تھی کہ میرے والدین اپنی اقدار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ میرے والدین جانتے ہیں کہ طاقت کے سامنے سچ کیسے بولنا ہے لہذا، مجھے اپنے والدین کی ہمت اور نڈر ہونے پر کبھی شبہ نہیں تھا۔”

عمار علی جان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیسز الزام لگانے والوں کے لیے ایک سبق ہیں کہ وہ پاکستان میں ہر کسی کو ڈرا دھمکا کر چپ نہیں کرا سکتے کیونکہ وقت اب بدل رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG