رسائی کے لنکس

پاکستان میں فوج کے سربراہان: کون، کب اور کتنا اہم رہا؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کمان سنبھال لی ہے جس کے ساتھ ہی جنرل باجوہ کا بطور آرمی چیف چھ سالہ دور اختتام پذیر ہو گیا ہے۔

بطور فور اسٹار جنرل ترقی پانے کے بعد عاصم منیر پاکستانی فوج کے 17 ویں سربراہ بن گئے ہیں۔ پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار اور سول و عسکری اداروں کے درمیان جاری اختیارات کی کشمکش کی طویل تاریخ کے باعث اس عہدے پر تقرری کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد جب برٹش انڈین آرمی کے اثاثے، افرادی قوت اور اسلحہ و ہتھیار تقسیم ہوئے تو فوج کی کمانڈ برطانوی افسران کے پاس تھی۔ پاکستان میں ابتدائی برسوں میں فوج کے دو سربراہان برطانوی افسر تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد جنرل سر فرینک والٹر میسروی پاکستان فوج کے کمانڈر ان چیف مقرر ہوئے۔ وہ فروری 1948 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جنرل میسروی کی سبک دوشی کے بعد جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی نے یہ عہدہ سنبھالا اور وہ فروری 1948 سے جنوری1951 تک کمانڈر ان چیف رہے۔

جنرل گریسی کے دور ہی میں مقامی افسران کو ترقیاں دی گئیں اور ان کی سبک دوشی کے بعد جنرل ایوب خان پاکستان کی فوج کے پہلے مقامی سربراہ مقرر ہوئے۔

پہلے مقامی کمانڈر

ایوب خان کو فوج کا مقامی سربراہ ہونے کے علاوہ کچھ اور پہلوؤں سے بھی انفرادیت حاصل تھی۔ وہ پہلے کمانڈر ان چیف تھے جو 1953 سے 1958 تک بطور وزیرِ دفاع کابینہ میں شامل رہے۔ انہیں دو بار مدتِ ملازمت میں توسیع دی گئی۔

اکتوبر 1958 میں انہوں نے صدر اسکندر مرزا کی جانب سے آئین معطل کرکے مارشل لا لگانے کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا اور خود صدر بن گئے۔

فیلڈ مارشل اور کمانڈر ان چیف

صدر بننے کے بعد ایوب خان نے براہ راست آرمی کی کمانڈ سنبھالنے کے بجائے خود کو فیلڈ مارشل قرار دیا۔ اس کے بعد فوج میں ان کی مدت ملازمت کا تیکنیکی مسئلہ حل ہو گیا کیوں کہ فیلڈ مارشل ایک ایسا منصب تھا جس کی کوئی مدت متعین نہیں تھی۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے اب تک کے واحد فیلڈ مارشل ہیں۔

انہوں نے کمانڈر ان چیف کے طور پر جنرل محمد موسیٰ خان کا انتخاب کیا۔ جنرل محمد موسیٰ خان 27اکتوبر 1958 سے 17 ستمبر 1966 تک تقریباً آٹھ سال تک کمانڈر ان چیف رہے۔ انہیں فیلڈ مارشل ایوب خان نے مدتِ ملازمت میں توسیع دی۔

جنرل موسیٰ خان کی کمان کے دور میں1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی اس سے قبل کشمیر کے حصول کے لیے آپریشن جبرالٹر ہوا تاہم اہم فیصلے ایوب خان ہی کرتے تھے۔

مارشل لا سے مارشل لا

جنوری 1965 میں ملک میں صدارتی انتخابات ہوئے اور ایوب خان کے مقابلے میں بانیٔ پاکستان کی بہن فاطمہ جناح اپوزیشن کی متفقہ امیدوار تھیں۔ ایوب خان یہ انتخاب جیت گئے لیکن اس کے بعد ان کی سیاسی مخالفت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔

ایوب خان نے 18 ستمبر 1966 کو جنرل محمد یحییٰ خان کو فوج کا کمانڈر ان چیف مقرر کیا۔ فروری 1968 میں ایوب خان کی صحت مسلسل گراوٹ کا شکار ہوئی اور ان کےخلاف احتجاجی تحریک زور پکڑنے لگی۔

اپوزیشن سے مذاکرات کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اُنہوں نے 24 مارچ 1969 کو فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خان کو خط لکھ کر اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی۔ 25 مارچ کو جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل نافذ کرکے آئین معطل کردیا۔

پاکستان میں حکمران رہنے والے فوج کے سربراہان۔
پاکستان میں حکمران رہنے والے فوج کے سربراہان۔

جنرل یحییٰ خان نے عبوری آئینی حکم نامہ جاری کرکے اپنے پیش رو کی طرح صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔ 1970 میں انہوں نے پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات کرائے۔

ان انتخابات میں ملک کے مشرقی حصے میں شیخ مجیب کی قیادت میں عوامی لیگ نے کلین سویپ کیا جب کہ مغربی حصے میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی۔

انتقالِ اقتدار پر کسی سمجھوتے میں ناکامی اور مشرقی پاکستان میں شورش کے بعد فوجی کارروائی کی گئی۔ بعدازاں بھارت بھی اس تنازعے میں شامل ہو گیا اور 16 دسمبر 1971 کو پاکستان کی فوج نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دیے۔

آخری کمانڈر ان چیف

مشرقی پاکستان میں فوج کی شکست کے بعد مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدارت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا۔

مشرقی پاکستان میں فوج کی شکست کے بعد جنرل یحٰیی خان کو 20 دسمبر 1971 کو معزول کرکے جنرل گل حسن کو قائم مقام کمانڈر ان چیف مقرر کیا گیا۔وہ 21 جنوری 1972 تک اس عہدے پر برقرار رہے۔ بعدازاں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے22 جنوری 1972 کو اُنہیں مستقل کمانڈر ان چیف بنا دیا۔

جنرل گل حسن بہت مختصر مدت کے لیے ہی اس عہدے پر فائز رہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اختلافات کے بعد ڈرامائی انداز میں دو مارچ 1972 کو ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل گل سے استعفی لے لیا۔ جنرل گل حسن فوج کے آخری کمانڈر ان چیف تھے۔

پہلے چیف آف آرمی اسٹاف

اس کےبعد ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کے سربراہ کے عہدے کو کمانڈر ان چیف سے بدل کر چیف آف آرمی اسٹاف کردیا۔ تین مارچ 1972 کو جنرل ٹکا خان پاکستان کے پہلے آرمی چیف بنے۔

وہ یکم مارچ 1976 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کا اعتماد حاصل رہا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1976 میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے جس کے بعد وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو دونوں کے مشیر برائے دفاعی امور بھی رہے۔

مارشل لا کا طویل دور

جنرل ٹکا خان کی سبک دوشی کے بعد یکم مارچ 1976 کو ذوالفقار علی بھٹو نے سات سینئر لیفٹننٹ جنرلز پر ترجیح دے کر جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کیا۔

یہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی عروج کا دور تھا۔ تاہم 1977 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعدبھٹو کے خلاف اپوزیشن کی تحریک شروع ہوئی جس کے بعدسیاسی کشمکش کے دوران پانچ جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کے چنیدہ آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے حکومت کا تختہ الٹ کر صدارت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔

جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں ہونے والی مزاحمت کو مدد فراہم کرنے کے لیے امریکہ کا ساتھ دیا۔ تاہم انہیں ملک میں رجعت پسندانہ نظریات اور قوتوں کو فروغ دینے کا ذمے دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے۔

ضیاء الحق 17 اگست 1988 کو طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگئے وہ اس وقت پاکستان کے آرمی چیف بھی تھے۔

مارشل لا کے بعد آرمی چیف

جنرل ضیاالحق کی حادثے میں موت کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ 17 گست 1988 کو ملک کے نئے آرمی چیف مقرر ہوئے اور صدارت کا عہدہ ان کے معتمد، چیئرمین سینٹ غلام اسحاق خان کو منتقل ہو گیا۔

ان کے دور میں انتخابات کے بعد طویل عرصے بعد اقتدار ، الیکشن جیتنے والی پیپلز پارٹی کو منتقل ہوا اور بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم بنیں۔ 1990 میں وزیرِ اعظم نواز شریف نے عراق کے خلاف کویت میں اتحادی افواج کی مدد کے لیے پاکستان کی فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا تو جنرل مرزا اسلم بیگ نے اس کی اعلانیہ مخالفت کی۔

وہ بطور آرمی چیف اپنی تین سالہ مدت پوری ہونے کے بعد زیادہ اختیارات کے ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کے خواہش مند تھے۔ تاہم صدر غلام اسحاق خان نے یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی اور وہ 16 اگست 1991 کو ملازمت سے سبک دوش ہوگئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مرزا اسلم بیگ نے ایک تھنک ٹینک اور سیاسی جماعت کی بنیاد بھی رکھی۔

دورانِ ملازمت انتقال کرنے والے آرمی چیف

مرزا اسلم بیگ کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے 16 اگست 1991 کو جنرل آصف نواز جنجوعہ کو آرمی چیف مقرر کیا۔ سندھ میں بد امنی اور دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن اور آرمی میں ترقی و تقرری پر وزیرِ اعظم نواز شریف سے ان کے اختلافات کا آغاز ہوا۔

جنرل آصف نواز آٹھ جنوری 1993 کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کرگئے۔ وہ اب تک دورانِ ملازمت طبعی طور پر انتقال کرنے والے واحد آرمی چیف ہیں۔

توسیع سے انکار کرنے والے جنرل

جنرل آصف نواز کی اچانک موت کے بعد ان کے جانشین کے انتخاب پر صدر غلام اسحاق خان اور اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے درمیان اختلافات ہوئے۔

جنرل آصف نواز جنجوعہ کے بھائی اور دفاعی و سیاسی تجزیہ کار شجاع نواز اپنی کتاب ’کراس سورڈز‘ میں لکھتے ہیں کہ جب نئے آرمی چیف کی تلاش شروع ہوئی تو نواز شریف چاہتے تھے کہ سب سے سینئر کور کمانڈر محمد اشرف جنجوعہ یہ عہدہ سنبھالیں۔لیکن صدر غلام اسحاق خان لیفٹننٹ جنرل فرخ خان کی طرف مائل تھے۔

وزیر اعظم نے صدر سے اس بات پر شدید اختلاف کا اظہار کیا کیوں کہ نواز شریف کا خیال تھا کہ آرمی چیف آصف نواز کے ساتھ ان کے اختلافات کے پیچھے لیفٹننٹ جنرل فرخ خان کا ہاتھ تھا۔

لیکن نواز شریف کی خواہش کے برخلاف صدر غلام اسحاق خان نے عبدالوحید کاکڑ کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔ بعدازاں جب صدر غلام اسحاق کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل اور عدالت سے بحالی کے بعد بھی وزیرِ اعظم نواز شریف سے ان کی سیاسی چپقلش میں کوئی فرق نہ آیا اور صورتِ حال بحران کی شکل اختیار کرگئی تو جنرل وحید کاکڑ نے دونوں کو مستعفی ہونے پر رضامند کرکے نئے انتخابات کی راہ ہموار کی۔ ان کی اس کوشش کو ’کاکڑ فارمولا‘ کہا جاتا ہے۔

بعدازاں ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے جس کے نتیجے میں ایک بار پھر بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم بنیں۔ انہوں نے جنرل وحید کاکڑ کو مدتِ ملازمت میں توسیع کی پیش کش کی جو انہیں نے قبول نہیں کی اور 12 جنوری 1996 کو اپنی مدت پوری کرکے سبک دوش ہوگئے۔

ایک تجویز اور آرمی چیف کا استعفی

جنرل وحید کاکڑ کی سبک دوشی کے بعد 12 جنوری 1996 کو جنرل جہانگیر کرامت پاکستان کے آرمی چیف بنے۔ان کی کمانڈ کے دوران ہی صدر فاروق لغاری سے اختلافات کے بعد نومبر 1996 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

سنہ 1997 کے انتخابات میں نواز شریف بھاری اکثریت کے ساتھ وزیرِ اعظم بنے۔ جنرل جہانگیر کرامت نے ایک موقعے پر امورِ مملکت میں فوج کے کردار کو شامل کرنے کے لیے نیشنل سیکیورٹی کونسل بنانے کی تجویز دی جس کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف سے ان کے اختلاف شدید ہوگئے۔

بالآخر 7 اکتوبر 1998 کو جنرل جہانگیر کرامت نے استعفی دے دیا۔ اس سے قبل وہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے صدر فاروق لغاری اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان جاری کشمکش میں بھی غیر جانب دار رہے۔

صدر اور آرمی چیف

وزیرِ اعظم نوازشریف نے دو سینئر لیفٹننٹ جنرلز پر ترجیح دے کر سات اکتوبر 1998 کو جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کیا۔ 1999 میں کارگل آپریشن کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف سے ان کے اختلافات پیدا ہوئے۔

وزیرِ اعظم نواز شریف نے 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کو اس وقت برطرف کردیا جب وہ سری لنکا کے دورے سے وطن واپس آرہے تھے۔

نواز شریف نے لیفٹننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کیا تھا لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا جس کے بعد پرویز مشرف ملک کے چوتھے فوجی حکمران بن گئے۔

امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بننے کا فیصلہ کیا۔ ان کے دور میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا اور فوجی کارروائی کے دوران نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت سے بلوچستان میں عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر پیدا ہوائی۔

صدارت اور آرمی چیف کا عہدہ بیک وقت اپنے پاس رکھنے کی وجہ سے پرویز مشرف پر تنقید ہوتی رہی۔ تاہم 2007 میں لال مسجد آپریشن اور عدلیہ کی بحالی کی تحریک سے جنرل پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت کمزور ہو گئی۔

انتیس نومبر 2007 کو انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ کر جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف مقرر کردیا۔صدر مشرف نے اگست 2008 میں صدر کے عہدے سے بھی استعفی دے دیا ۔

سوچنے والا جنرل

جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف مقرر ہونے سے قبل 2004 سے 2007 کے دوران آئی ایس آئی چیف بھی رہے۔ اسی دوران صدر جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والی مفاہمت کے نتیجے میں قومی مفاہمتی آرڈینس (این آر او) منظور ہوا۔

اس این آر او کے تحت 1986 سے 12 اکتوبر 1999 کے دوران سیاست دانوں پر قائم ہونے والے مقدمات واپس لیے گئے۔ این آر او کے بعد بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔

جنرل کیانی کی کمان کے دوران ہی سوات میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا۔ جولائی 2010 میں وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں تین سال کی مدت کے لیے توسیع دی۔

امریکہ نے دو مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں آپریشن کرکے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تو اس وقت جنرل کیانی پاکستانی فوج کے سربراہ تھے۔ جنرل کیانی کو کم گوئی اور مطالعہ کی عادت کی وجہ سے ’سوچنے والا جرنیل‘ کہا جاتا ہے۔

’شکریہ راحیل شریف‘

جنرل کیانی کے بعد جنرل راحیل شریف 29 نومبر 2013 کو فوج کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد اس وقت وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور اس کے سربراہ نواز شریف ملک میں تیسری بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے۔ جنرل راحیل شریف کی تعیناتی بھی نواز شریف نے کی تھی۔

سقوطِ ڈھاکہ کے 50 سال: کیا پاکستان فوجی حکمرانوں کی وجہ سے ٹوٹا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:15:47 0:00

تاہم انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کرکے حکومت کے خلاف طویل دھرنا دیا تھا جس میں ایک موقعے پر جنرل راحیل شریف نے ثالثی کا کردار بھی ادا کیا۔

کراچی میں قیام امن کے لیے سیکیورٹی اداروں کی کارروائی کا آغاز بھی 2015 میں انہیں کے دور میں ہوا۔ جنرل راحیل شریف کے لیے سوشل میڈیا پر ’شکریہ راحیل شریف‘ کے ٹرینڈز بھی چلے۔ وہ 29 نومبر 2016 کو ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد سعودی عرب کی قائم کردہ مشترکہ فورس کے سربراہ بنے۔

سیاست سے دوری کا فیصلہ

جنرل راحیل شریف کے بعد 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف تعینات ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کا انتخاب بھی وزیرِ اعظم نواز شریف نے کیا تھا۔

سن 2017 میں پاناما اسکینڈل سامنے آنے کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے تو سیاست میں فوج کے کردار کے الزامات پر جنرل باجوہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے جنرل باجوہ پر 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے میں مدد کے الزامات بھی لگائے۔

عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں کئی مواقع پر جنرل باجوہ کی تعریف بھی کی اور ملکی امور پر ایک صفحے پر ہونے کے تاثر کو بارہا دہرایا۔ 2020 میں وزیرِ اعظم عمران خان نے جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع دی۔

تاہم رواں برس اپریل میں اپنے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے بالواسطہ طور پر فوج اور جنرل باجوہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

جنرل باجوہ 29 نومبر 2022 کو اپنے عہدے سے سبک دوش ہوں گے۔ انہوں نے 23 نومبر کو جی ایچ کیو میں ہونے والی تقریب میں فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ رواں برس فروری سے فوج نے بطور ادارہ سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG