رسائی کے لنکس

’وزیرِ اعظم حاضر ہوں‘: وزرائے اعظم کب کب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے؟


عمران خان کی سپریم کورٹ میں پیشی پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیرِ اعظم کی عدالت میں حاضری کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل ماضی میں تین وزارئے اعظم سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہو چکے ہیں۔
عمران خان کی سپریم کورٹ میں پیشی پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیرِ اعظم کی عدالت میں حاضری کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل ماضی میں تین وزارئے اعظم سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے سے متعلق سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس میں طلب کرنے پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیرِ اعظم کی عدالت میں پیشی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل ماضی میں تین وزرائے اعظم سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہو چکے ہیں۔

چار روز تک جاری رہنے والا بیان

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ فوج کی جانب سے تختہ الٹنے کے بعد اپنے خلاف چلنے والے قتل کے کیس میں عدالت میں پیش ہوئے تھے البتہ یہ پاکستان میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والے کسی بھی وزیرِ اعظم کی عدالت کے سامنے پہلی پیشی تھی۔

نواب احمد قصوری کے قتل کیس میں 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنا دی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے دوران 18 دسمبر 1978 کو بھٹو عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے ایک طویل بیان ریکارڈ کرایا۔

ان کا یہ بیان چار روز تک جاری رہا۔ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کا سپریم کورٹ میں دیا گیا یہ طویل بیان ’مائی ایگزیکیوشن‘ (میری سزا) کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی شائع ہوا۔

وزیرِ اعظم کے خلاف توہینِ عدالت

دو نومبر 1997 کو سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیر قانون خالد انور اور دیگر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے تھے۔

فوجی عدالتوں کے قیام اور آئین میں ترامیم کا معاملہ عدالت میں زیرِ بحث تھا اور وزیرِ اعظم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے متعلق سخت بیان دے چکے تھے جس پر انہیں عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ ان بیانات پر انہیں توہینِ عدالت کا نوٹس دیا گیا تھا۔

وزیرِ اعظم نواز شریف نے 17 نومبر کو عدالت میں پیش ہو کر اپنا تحریری بیان داخل کرایا جب کہ 19 نومبر کو ان کے خلاف توہینِ عدالت کی فرد جرم عائد کر دی البتہ انہیں عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دے دیا گیا۔

عدالت نے اس کیس کا فیصلہ 28 نومبر 1997 کو سنانا تھا لیکن اس سے قبل 26 نومبر سپریم کورٹ کے کوئٹہ بینچ نے اس وقت کے چیف جسٹس کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس نے کوئٹہ بینچ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔

لیکن وہ 28 نومبر کو اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ کے کارکنوں کے سپریم کورٹ کی عمارت پر دھاوا بولنے کی وجہ سے وزیرِ اعظم کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمے میں بھی فیصلہ نہیں سنا سکے۔ اس تنازع کے بعد سجاد علی شاہ کی جگہ جسٹس اجمل میاں کو چیف جسٹس بنا دیا گیا۔

اپنے تیسرے دورِ حکومت میں نواز شریف پانامہ پیپرز کے معاملے پر سپریم کورٹ کی بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے 15 جون 2017 میں پیش ہوئے۔ بعد ازاں اسی کیس میں انہیں قابل وصول تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو نا اہل قرار دے دیا۔

خط لکھنے کا معاملہ

فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں جاری کیے گئے قومی مفاہمتی آرڈی ننس (این آر او) سے متعلق عمل درآمد کیس میں 16 جنوری 2012 کو عدالت نے اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو طلب کیا۔

اگلے ہی روز وزیرِ اعظم نے پارلیمان سے خطاب میں عدالت کے سامنے پیش ہونے کا اعلان کیا اور 19 جنوری کو وہ اپنے وکیل اعتزاز احسن کے ہمراہ سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے۔ عدالت نے انہیں حاضری سے استثنی دے دیا۔

سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو این آر او کے تحت بند ہونے والے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ کرپشن کیسز کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کی ہدایت کی تھی۔

یوسف رضا گیلانی نے ان عدالتی ہدایات پر عمل درآمد نہیں کیا تھا جس پر 12 جون 2012 کو سپریم کورٹ نے انہیں توہینِ عدالت کی علامتی سزا دی، جس کے بعد وہ اسمبلی کی رکنیت اور اس کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے بھی نا اہل ہو گئے۔

ایک اور وزیرِ اعظم کی طلبی

یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان کی کابینہ میں وزیرِ پانی و بجلی رہنے والے راجہ پرویز اشرف کو وزارتِ عظمی کے لیے نامزد کیا۔ راجہ پرویز اشرف 22 جون 2012 کو وزیرِ اعظم بنے۔

منصب سنبھالنے کے دو ماہ بعد ہی 8 اگست کو سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف کو این آر او عمل درآمد کیس میں طلب کیا۔

سپریم کورٹ کے احکامات پر وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف 27 اگست کو عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے انہیں سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 18 ستمبر تک کی مہلت دی۔ وزیرِ اعظم پرویز اشرف نے 18 ستمبر کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا اختیار وزیرِ قانون کو دے دیا۔

بالآخر پانچ نومبر 2012 کو حکومت پاکستان نے سوئس حکام کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کے لیے خط لکھ دیا۔

راجہ پرویز اشرف کی وزارتِ عظمی کے دوران جنوری میں سپریم کورٹ نے کرائے کے بجلی گھر میں مبینہ بدعنوانی کے کیس میں انہیں گرفتار کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔

XS
SM
MD
LG