رسائی کے لنکس

ہالی وڈ سے عرب ملکوں کا محبت و نفرت کا رشتہ


سروے میں 45 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ہالی وڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں، جبکہ 34 فیصد کو لگتا ہے کہ امریکی فلمیں اخلاقی تباہی کا سبب ہیں۔ 15 فیصد کا خیال ہے کہ امریکی فلموں میں مثبت اقدار کو پیش کیا جاتا ہے

دنیا بھر کی طرح مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رہنے والوں کو بھی ہالی وڈ کی فلمیں پسند ہیں اور ایک بڑی تعداد ان فلموں سے لطف اندوز بھی ہوتی ہے۔ لیکن، دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب شائقین ان فلموں کو اخلاقیات کے لئے خطرہ اور نقصان دہ بھی سمجھتے ہیں۔

امریکی ٹیلی ویژن نیوز چینل، ’سی این این‘ کے مطابق نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور دوحہ فلم انسٹیٹیوٹ کے مشترکہ سروے میں یہ دلچسپ حقیقت سامنے آئی کہ ہالی وڈ فلموں کو عرب ملکوں میں بیک وقت پسند بھی کیا جاتا ہے اور اخلاقی اقدار کے لئے خطرہ بھی انہیں ہی سمجھا جاتا ہے۔

سروے کے لئے قطر، سعودی عرب، لبنان، مصر، تیونس اور متحدہ عرب امارات میں رہنے والے 6000 افراد کے انٹرویو کئے گئے، جن میں مقامی اور غیر مقامی دونو ں شامل تھے۔

سروے میں، 45 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ہالی وڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں، جبکہ 34 فیصد کو لگتا ہے کہ امریکی فلمیں اخلاقی تباہی کا سبب ہیں۔ 15 فیصد کا خیا ل ہے کہ امریکی فلموں میں مثبت اقدار کو پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن، 71 فیصد یہی بات عرب فلموں کے لئے محسوس کرتے ہیں۔

سروے میں شامل افراد کی رائے دیگر غیرملکی زبانوں میں بننے والی فلموں کے بارے میں بھی ملی جلی ہے۔ دوتہائی افراد کا کہنا ہے کہ مختلف ملکوں میں بنی فلمیں دیکھنے سے سیکھنے کو ملتا ہے اور 65 فیصد سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی فلمیں دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس میں ان کا اپنا کلچر دکھایا گیا ہو۔

پچاس فیصد سے زیادہ یعنی 54 فیصد لوگ فلموں کو اپنے کلچر کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔

یہ بات کوئی حیرت انگیز نہیں کہ سروے میں شامل لوگوں کی بہت بڑی تعداد عربی میں بننے والی فلمیں دیکھنا پسند کرتی ہے اور اسی لئے 80فیصد لوگوں نے عرب کی فلموں کو اپنی پہلی چوائس قراردیا۔ اس کے برعکس، آدھی تعداد میں شہریوں نے بتایا کہ وہ امریکن اور یورپین فلمیں پسند کرتے ہیں۔

لوگوں کی بڑی تعداد یہ رائے رکھتی ہے کہ رومینٹک اور پرتشدد فلموں کو ایک حد میں پیش کیا جانا چاہئے۔دو تہائی سے بھی زیادہ کے مطابق ایسی فلموں پر پابندی لگائی جانی چاہئے جو تشدد اور غیراخلاقی اقدار کو فروغ دیں۔

سعودی عرب اور مصر میں 76 اور 77 افراد سنسر شپ کے حامی ہیں۔ تیونس میں آدھے فیصد لوگ سنسر شپ کے حق میں ہیں۔

مارچ کے شروع میں تین خلیجی ریاستوں قطر، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں ہالی وڈ کی بلاک بسٹر فلم ’نوح‘ کی نمائش پر پابندی عائد کردی گئی۔

اس سے دو ماہ مہینے پہلے، تین گھنٹے دورانیے پر مشتمل ہالی وڈ فلم ’وولف آف وال اسٹریٹ‘ کے 40منٹ سنسر کر دئیے گئے۔72فیصد قطریوں اور 68فیصد اماراتی باشندوں کا خیال ہے کہ پرتشدد اور غیراخلاقی مواد کو سنسر کیا جانا چاہئے۔

فلموں پر پابندی صرف ہالی وڈ تک محدود نہیں، بلکہ بالی وڈ کی کئی فلمیں سنسر کی زد میں آچکی ہیں۔سال 2012 میں ریلیز ہونے والی ’راز3‘ کی نمائش پر قطر میں غیراخلاقی مناظر کی بنیاد پر پابندی عائد کردی تھی۔ متحدہ عرب امارات میں گذشتہ سال ریلیز ہونے والی ’گرینڈ مستی‘ پر بھی پابندی تھی۔

سال 2012 میں تیونس کی عدالت نے پرائیوٹ ٹی وی اسٹیشن پر 1400 ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا، کیونکہ اس پر نشر ہونے والے پروگرام میں خدا کے بارے میں جو باتیں کہی گئیں وہ نا مناسب تھیں۔
XS
SM
MD
LG