رسائی کے لنکس

اکیس برس میں 68 ارب ڈالر: چین کے قرضوں سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہوا؟


امریکہ میں قائم انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ریسرچ لیب 'ایڈ ڈیٹا' کی جانب سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کی جانب سے گزشتہ 21 برس میں پاکستان کو 68 ارب ڈالر سے زائد فراہم کیے گئے جس میں صرف دو فی صد رقم ایسی تھی جو امداد کی صورت میں دی گئی۔

یوں پاکستان 2000 سے 2021 تک چین سے قرض حاصل کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان سے بھی زیادہ چین سے رقم حاصل کرنے والے ممالک روس اور وینزویلا ہیں جنہوں نے بالترتیب 169 ارب ڈالر اور 112 ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم بطور قرض چین سے لے رکھی ہے۔

'ایڈ ڈیٹا' مزید بتاتا ہے کہ چین کی حکومت اور مالی اداروں کی جانب سے پاکستان کے لیے مجموعی طور پر 386 منصوبوں کے لیے 100 ارب امریکی ڈالر کا وعدہ کیا گیا تھا جو ایڈجسٹمنٹ کے بعد 68 ارب ڈالر بنا۔

اس میں سے توانائی کے منصوبوں پر 26 ارب ڈالر (40 فی صد)، بجٹ سپورٹ کے لیے 21 ارب ڈالر، ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے شعبے میں 10 ارب ڈالر جب کہ بینکنگ اور فنانشل سروسز کی غرض سے سات ارب ڈالر اور باقی رقم مواصلات، سوشل انفراسٹرکچر، انڈسٹری، کان کنی، تعمیرات، زراعت، ایمرجنسی رسپانس اور دیگر مقاصد کے لیے دیے گئے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 68 ارب ڈالر قرضے کے علاوہ خالص گرانٹ ایک ارب ڈالر، اور باقی ٹیکنیکل اسپورٹ، قرضوں کی ری شیڈولنگ اور دیگر مد میں دیے گئے۔

پاکستان نے چین سے کتنا قرض لیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:03 0:00

اس عرصے میں ایشیا میں پاکستان توانائی کے شعبے میں سب سے زیادہ قرض لینے والا ملک رہا ہے۔ جب کہ ٹرانسپورٹ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے لیے ہائی ویز، پل اور دیگر انفراسٹرکچر بنانے کے شعبے میں بھی پاکستان چین سے قرض حاصل کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور حکومت میں چین سے سب سے زیادہ یعنی 37 ارب ڈالر حاصل کیے گئے۔ تحریکِ انصاف کے دور حکومت میں 19 ارب ڈالر، پیپلز پارٹی کے دور میں 10 ارب ڈالرز اور پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی 4.1 ارب ڈالر کا قرضہ چین سے حاصل کیا گیا۔

ایک سال میں سب سے زیادہ قرضہ 2017 میں ملا جو 12 ارب ڈالر تھا۔ لیکن 2018 میں آنے والی نئی حکومت کے بعد اس میں بتدریج کمی دیکھنے میں آئی اور پھر پاکستان کو زیادہ تر قرضہ بجٹ خساروں کو پورا کرنے کے لیے دیا جاتا رہا۔

رپورٹ کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان میں عوامی رائے، میڈیا اور اشرافیہ میں چین کے لیے مثبت رائے میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ چین کی جانب سے یہاں توقع سے زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا۔

کیا پاکستان کے لیے چینی امداد قرضوں کا جال ہے؟

پاکستان میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ چین کی جانب سے دیا گیا قرضہ ایک جال یعنی 'ڈیبٹ ٹریپ' ہے جس میں پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر اور غریب ممالک کو پھنسایا گیا ہے۔ لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے کیس میں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کی مس مینجمنٹ اور خراب پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

ماہر اقتصادیات اور اقرا یونی ورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر ایوب مہر کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت قرضوں کے ایک جال میں ضرور ہے۔ لیکن اس کی وجہ چین سے لیے گئے قرضوں کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ تین دہائیوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ تقریباً 30 سال سے پاکستان پرانا قرض چکانے کے لیے مزید قرض لیتا رہا اور اب دنیا میں سستے قرضے نہیں ملتے بلکہ اب کافی بلند شرح سود پر قرضے ملتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نتیجے کے طور پر حکومت کو پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے ٹیکسز کی شرح میں اضافہ کرنا پڑا، نئے ٹیکس کا نفاذ ہوا جس سے ملک کے اندر مہنگائی میں اضافہ ہوا، لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی اور لوگوں میں بے چینی میں اضافہ ہوا۔

ڈاکٹر ایوب مہر کہتے ہیں کہ مہنگائی بڑھنے کے باعث حکومت کو شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا اور اس کے نیتجے میں کاروبار کرنا مشکل ہوا، نتیجے کے طور پر ملازمتوں کے مواقع کم ہوئے۔

'قرض اگر جال بنا تو ہماری پالیسیاں ذمے دار ہیں'

معاشی تجزیہ کار عبدالرحمان نے بھی کچھ ایسی ہی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے اس رقم کی فراہمی زبردستی نہیں بلکہ معاہدے کے تحت تھی۔

اُن کے بقول ایسے میں اگر یہ قرض جال میں تبدیل ہوا تو اس کی وجہ ہماری پالیسیاں ہی ہوں گی۔ حکومت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے فیز ٹو پر بالکل کام نہیں کیا جس کے تحت ملک میں برآمدات بڑھانے والی فیکٹریاں اور صنعتیں لگنی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسی انڈسٹری جس کی وقعت چین میں کم ہو چکی ہے وہ یہاں لگنی تھیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس مقصد کے لیے قائم کیے گئے فری اکنامک زونز اور اسپیشل اکنامک زونرز میں بنیادی ضروریات فراہم نہیں کی گئیں۔ ایسے میں اب جب چین کے تعاون سے قائم کیے گئے توانائی کے کارخانوں کے مالکان اپنا منافع اپنے ملک لے جانا چاہتے ہیں تو انہیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

تاہم کئی ماہرین کا یہ بھی خیال کہنا ہے کہ چین کی جانب سے دیے گئے قرضے مہنگے تھے اور کئی منصوبوں میں شفافیت کے بجائے شرائط و ضوابط اب تک واضح نہیں ہیں جس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔

'ایڈ ڈیٹا' کے مطابق 2014 سے 2021 یعنی صرف سات سال کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ چین نے دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو مجموعی طور پر 680 ارب ڈالر فراہم کر کے اپنی خارجہ پالیسی مقاصد کو فروغ دینے کی کوشش کی جب کہ اس دوران میں امریکہ نے بھی ان ممالک کو امداد دی جو مجموعی طور پر 319 ارب ڈالر رہی۔

فورم

XS
SM
MD
LG