رسائی کے لنکس

اترپردیش میں مسلم آبادیوں میں ووٹرز کا زیادہ ٹرن آؤٹ، بی جے پی کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں؟


بھارت کی سب سے بڑی ریاست کے انتخابی نتائج کو ملکی سیاست کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت کی سب سے بڑی ریاست کے انتخابی نتائج کو ملکی سیاست کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

بھارتی ریاست اترپردیش کے انتخابات میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹرز ٹرن آؤٹ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو مجموعی طور پر لگ بھگ 63.3 فی صد ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمان ووٹرز کا زیادہ ٹرن آؤٹ انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

ریاست اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں پیر کو مسلم اکثریت رکھنے والے نو اضلاع؛ سہارنپور، رامپور، شاہجہاں پور، بدایوں، مرادآباد، سنبھل، امروہہ، بریلی اور بجنور میں پولنگ ہوئی۔ ان میں سے بعض حلقوں میں مسلم آبادی 20 سے 30 فی صد اور بعض میں 30 فی صد سے زائد ہے جب کہ 9 اسمبلی حلقوں میں یہ شرح 50 فی صد سے بھی زائد ہے۔

الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ امروہہ میں 71.63 فی صد ووٹ پڑے۔ دوسرے نمبر پر سہارنپور رہا جہاں 71.15 فی صد ووٹ پڑے۔

یہ علاقے سماج وادی پارٹی کے گڑھ مانے جاتے رہے ہیں لیکن 2017 کے اسمبلی الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ان 55 سیٹوں میں سے 38 پر کامیابی حاصل کی تھی اور سماج وادی پارٹی نے 15 نشستیں جیتی تھیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ ان حلقوں میں مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جہاں ہندو ووٹرز کو راغب کرنے کی کوشش کر تے رہے وہیں وہ اپنے انداز میں مسلم رائے دہندگان کو اپنی جانب مائل کرنے میں بھی مصروف رہے۔

نریند رمودی نے سہارنپور میں ایک انتخابی ریلی میں سماج وادی پارٹی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مسلم بیٹیوں کی ترقی روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بھارت: اتر پردیش کے انتخابات اتنے اہم کیوں ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:13 0:00

یوگی آدتیہ ناتھ نے اس سے قبل بیان دیا تھا کہ ریاست کا موجودہ الیکشن 80 بنام 20 ہے۔ یاد رہے کہ ریاست میں مسلم آبادی تقریباً 20 فی صد ہے۔

لیکن دوسرے مرحلے کی پولنگ کے آغاز سے قبل انہوں نے اپنے اس بیان کی وضاحت کی اور کہا کہ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ 80 فی صد عوام بی جے پی حکومت کے ترقیاتی کاموں میں یقین رکھتی ہے اور 20 فی صد نہیں رکھتے۔ اس طرح یہ مقابلہ ان 80 اور 20 کے درمیان ہے۔

بعض مبصرین یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ بی جے پی کے کئی امیدواروں نے ہندو اور مسلم ایشوز کو اپنی انتخابی مہم کا بنیادی موضوع بنانے کوشش کی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

اس سے قبل انتخابات کے دوران مسلم ووٹ بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں میں بٹ جاتا تھا جس کی وجہ سے بی جے پی امیدوار کامیاب ہو جاتا تھا لیکن اس بار بظاہر ووٹ تقسیم نہیں ہو رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں جو حالات رہے ہیں اس سے مسلمانوں نے سبق سیکھا ہے اور اس بار ان کی کوشش ہے کہ ان کے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ وہ اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ کی طاقت سے اس حکومت کو بدلنا چاہتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بہت سے غیر مسلم بھی اس حکومت سے ناخوش ہیں۔ خاص طور پر تاجر برادری بہت ناراض ہے کیوں کہ گزشتہ برسوں میں اسے حکومتی پالیسوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جن علاقوں میں غیر مسلم آبادی زیادہ ہے وہاں پولنگ کی شرح کم رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو وہ یوگی حکومت سے خوش نہیں ہیں اور دوسرا ممکنہ سبب یہ ہے کہ انہیں بھی اب سماج وادی پارٹی کی حکومت قائم ہونے کا امکان نظر آرہا ہے۔ اسی لیے وہ بڑی تعداد میں نکل کر ووٹ دینے نہیں جا رہے ہیں۔

ایک سینئر تجزیہ کار شرون گرگ کے مطابق اس بار یو پی کے مسلمان ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت ووٹ ڈال رہے ہیں۔

ان کے مطابق مسلمانوں اور ہندوؤں کو تقسیم کرنے کی بی جے پی کی کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے 80 بنام 20 والے بیان کی وضاحت کی ہے۔

بھارت میں الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:50 0:00

ان کا کہنا ہے کہ اب تک جن دو مرحلوں میں الیکشن ہوئے ہیں ان میں 2017 میں بی جے پی کو 91 اور سماج وادی کو 17 سیٹیں ملی تھیں۔ اگر یہ 91 سیٹیں سماج وادی اور راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کے کھاتے میں چلی جاتی ہیں تو ریاست کی دیگر نشستوں پر ووٹرز کا رجحان دیکھنا ہو گا۔

ان کے مطابق مسلمانوں کی کوشش ہے کہ ان کا ووٹ تقسیم نہ ہو۔ ان کا خیال ہے کہ حجاب تنازع نے مسلمانوں کو ایک حوصلہ دیا ہے۔

شرون گرگ کا کہنا ہے کہ دونوں مرحلوں میں جو رجحان دکھائی دیا ہے اس سے لگتا ہے کہ بی جے پی کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر وہ ہار گئی تو اس کا اثر راجیہ سبھا کے الیکشن پر اور اس سے بھی زیادہ صدر جمہوریہ کے الیکشن پر پڑے گا۔

یاد رہے موجودہ صدر کی مدت رواں سال جولائی میں ختم ہو رہی ہے۔

بعض دیگر تجزیہ کار بھی کہتے ہیں کہ دوسرے مرحلے میں بی جے پی کو خاصا نقصان ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یو پی کے ایک وزیر اور بی جے پی امیدوار سریش رانا نے الیکشن کمیشن سے شکایت کی ہے کہ ان کے حلقے میں 40 بوتھوں پر قبضہ کر لیا گیا تھا اور وہاں دوبارہ الیکشن کرائے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس اپیل کو مسترد کر دیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق کئی مقامات پر سماج وادی کارکنوں نے بھی اسی قسم کی شکایتیں کی تھیں جنھیں الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا ہے۔

اس سے قبل 2014 کے پارلیمانی، 2017 کے ریاستی اسمبلی اور پھر 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں مسلم ووٹ تقسیم ہو گیا تھا اور اس طرح اس کی اہمیت تقریباً ختم ہو گئی تھی۔

بعض تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمان متحد ہو کر بی جے پی کے خلاف اور سماج وادی اور راشٹریہ لوک دل ( آر ایل ڈی) کے اتحاد کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں۔ اگر چہ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحاد المسلمین بھی انتخاب لڑ رہی ہے لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کا رجحان اس جماعت کی جانب نظر نہیں آتا۔

مرادآباد سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی معصوم مرادآبادی ہیں کہ اس بار ہندو ووٹرز کی اکثریت بھی بی جے پی کے مبینہ جذباتی ایجنڈے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کے بقول بیشتر ہندو ووٹرز کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پاس ہندو، مسلم کے علاوہ کوئی اور ایجنڈا نہیں ہے۔

ان کے مطابق عوام کی اکثریت اب اصل ایشوز کی بات کرنے لگی ہے۔ وہ جذباتی ایشوز پر بہکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو پارٹی عوام کے اصل مسائل پر بات کر رہی ہے عوام اس کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے خلاف عوامی رجحان کسانوں کی تحریک سے شروع ہوا تھا۔ حالاں کہ وزیر اعظم نے یہ سوچ کر متنازع زرعی قوانین واپس لیے تھے کہ کسانوں کی ناراضگی دور ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور کسان اب بھی حکومت سے ناراض ہیں۔

بی جے پی کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں اور تجزیہ کاروں کے اس الزام کی تردید کی جاتی رہی ہے کہ وہ ہندو مسلم ایشوز پر الیکشن جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے مطابق وہ صرف ترقی کے ایجنڈے اور وزیرِ اعظم کے 'سب کا ساتھ سب کا وکاس' یعنی سب کی ترقی کے نعرے کے نام پر الیکشن لڑتی ہے۔

اترپردیشں کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ
اترپردیشں کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ

وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ بات بار بار کہی ہے کہ حکومت کرونا وبا کے بعد سے عوام کو جو مفت راشن دے رہی ہے وہ مذہب کی تخصیص کی بنیاد پر نہیں بلکہ سب کو دے رہی ہے۔

ریاست میں ابھی پانچ مرحلوں میں پولنگ باقی ہے۔ تیسرے مرحلے میں 20 فروری کو 16 اضلاع کی 59 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔

تیسرے مرحلے میں جن اضلاع میں ووٹ ڈالے جائیں گے ان میں فیروزآباد، ہاتھرس، کانپور، فرخ آباد، قنوج، جھانسی اور مین پوری قابل ذکر ہیں۔

اتر پردیش میں سات مارچ کو آخری مرحلے کی پولنگ ہوگی اور 10 مارچ کو ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG