رسائی کے لنکس

جنرل باجوہ کی ایما پر سرکاری معاون نے سائفر چوری کیا، عمران خان کا سائفر کیس میں بیان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں دس دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اس کیس میں فیصلہ آنے سے قبل عمران خان نے دفعہ 342 کے تحت اپنی صفائی میں بیان ریکارڈ کرایا۔

منگل کو سماعت کے دوران ایک گھنٹہ اور بیس منٹ تک لکھوائے جانے والے اس بیان میں عمران خان نے سائفر گمشدگی کے لیے اپنے اے ڈی سی پر الزام عائد کیا اور الزام عائد کیا کہ ان کے سرکاری معاون (اے ڈی سی) نے جنرل باجوہ کی ایما پر سائفر چوری کیا تھا۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کو عدالت میں موجود دو صحافیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عمران خان کے بیان کی تفصیلات بتائیں۔

اُن کے مطابق عمران خان کا یہ بیان 'آن ریکارڈ' تھا جس کی تمام تر تفصیلات عدالتی کارروائی میں شامل کی گئی ہیں۔

وزیرِ اعظم کا اے ڈی سی عام طور پر میجر رینک کا ملٹری افسر ہوتا ہے جو ہر وقت وزیرِ اعظم کے ساتھ رہتا ہے اور ان کے ذاتی اور سرکاری امور میں معاونت کرتا ہے۔

عمران خان نے اڈیالہ جیل میں جج ابوالحسنات ذوالقرین کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ سائفر وزیرِ اعظم آفس میں تھا جہاں کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ملٹری سیکریٹری، پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری پروٹوکول پر عائد ہوتی ہے جو وزیرِ اعظم ہاؤس کی سیکیورٹی کو دیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا "میرے ساڑھے تین سال کے دوران یہ واحد دستاویز ہے جو وزیرِ اعظم آفس سے گم ہوئی اور اس کے گم ہونے پر میں نے اپنے ملٹری سیکریٹری سے کہا کہ انکوائری کی جائے، یہ وہ واحد موقع تھا جب میں ملٹری سیکریٹری سے ناراض بھی ہوا۔"

اس سے قبل عمران خان سائفر کے حوالے سے کوئی واضح جواب نہیں دیتے تھے لیکن اس کیس کی سماعت کے دوران عمران خان نے پہلی مرتبہ اپنے اے ڈی سی کی طرف سے سائفر چوری کیے جانے کا الزام عائد کیا۔

عمران خان نے کہا کہ ملٹری سیکریٹری نے انکوائری کے بعد بتایا کہ سائفر کے حوالے سے کوئی سراغ نہیں ملا۔

عمران خان نے اپنی حکومت ہٹائے جانے کے بارے میں ایک بار پھر اپنے پرانے الزامات کو دہرایا اور کہا کہ منتخب وزیرِ اعظم کو سازش کے ذریعے ہٹایا گیا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو سازش میں شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری حکومت گرانے کے لیے سازش اکتوبر 2021 میں ہوئی جب جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو تبدیل کیا۔ جنرل باجوہ، نواز شریف اور شہباز شریف کی ملی بھگت سے یہ سب ہوا کیوں کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع کا وعدہ کیا تھا۔

عمران خان کے ان الزامات کے حوالے سے جنرل باجوہ نے بعض صحافیوں سے ملاقاتوں میں ان تمام الزامات سے انکار کیا تھا۔

'ہمارے لوگوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا'

اپنے بیان میں عمران خان نے کہا کہ امریکہ میں مقیم حسین حقانی کو امریکہ میں جنرل باجوہ کی لابنگ کے لیے ہائر کیا گیا اور اس مقصد کے لیے انہیں 35 ہزار ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔ اسی وجہ سے اپریل میں حسین حقانی نے ایک ٹوئٹ کیا کہ عمران خان امریکہ مخالف اور جنرل باجوہ امریکہ کے حامی ہیں۔

عمران خان نے الزام عائد کیا کہ ہمارے اتحادی ہمیں چھوڑ جائیں اس کے لیے جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی کو استعمال کیا، آئی ایس آئی نے ہمارے لوگوں کو پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا اور کہا کہ ان کا مستقبل نون لیگ کے ساتھ ہے۔ اس بارے میں میں نے جنرل باجوہ سے مل کر اس سازش کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔

ان کے بقول، جنرل باجوہ سے ملاقاتوں کے باوجود آئی ایس آئی ہماری حکومت کے خلاف کام کرتی رہی۔

عمران خان نے اپنے بیان میں دورۂ روس کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ مارچ 2022 کے پہلے ہفتے میں میرا روس کا دورہ تھا جس میں دفترِ خارجہ کی مرضی بھی شامل تھی، اس دورہ پر جانے سے قبل جنرل باجوہ سے بھی بات ہوئی اور ان کی رائے تھی کہ روس جانا چاہیے۔

سابق وزیرِ اعظم کے مطابق روس سے واپس آنے کے کچھ دنوں بعد وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ واشنگٹن سے پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر میسج بھیجا ہے۔ ان کے بقول یہ حیران کن سائفر تھا جو وزیرِ خارجہ اور وزیرِ اعظم کو دکھانے کے لیے نہیں تھا۔ شاہ محمود قریشی نے اسد مجید کو ٹیلی فون کر کے سائفر سے متعلق معلومات حاصل کی اور میں سائفر کو پڑھ کر حیران اور ششدر رہ گیا۔

ان کے بقول، امریکی آفیشل کے ساتھ میٹنگ میں کسی سفیر کو دھمکایا گیا ہو اس کی مثال نہیں ملتی جس میں کہا گیا ہو کہ اگر وزیرِ اعظم کو نہ ہٹایا تو اس کے نتائج ہوں گے۔ اسد مجید نے ڈونلڈ لو کو بتایا تھا کہ دورۂ روس پر تمام اسٹیک ہولڈر آن بورڈ تھے۔

سائفر کے حوالے سے اسد مجید نے امریکہ کو ڈی مارش کرنے کا کہا تھا اور اس تمام صورتِ حال میں ہمارے اتحادی پیغام بھیج رہے تھے کہ ان پر اتحاد چھوڑنے کے لیے آئی ایس آئی کا دباؤ ہے اور اس دوران امریکی سفارت خانہ بھی پاکستان میں متحرک تھا۔

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو امریکی سفارت خانے ملاقاتوں کے لیے بلایا جا رہا تھا۔ عاطف خان کو امریکی کونسل خانے بلا کر کہا گیا کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دیں۔

عمران خان نے کہا کہ اس دوران جنرل باجوہ سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں، ملاقاتوں میں کہا تھا کہ اگر حکومت گرائی جاتی ہے تو معیشت تباہ ہو جائے گی، میں نے جنرل باجوہ کو کہا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت جو پلان کی جا رہی ہے وہ معاشی صورتِ حال سنبھال نہیں پائے گی۔ اس دوران جنرل باجوہ مسلسل جھوٹ بولتے رہے کہ وہ حکومت کو چلنے دینا چاہتے ہیں۔

عمران خان نے جلسے کے دوران لہرائے جانے والے مبینہ سائفر سے متعلق اپنے بیان میں کہا کہ پریڈ گراؤنڈ جلسے میں صرف کاغذ لہرا کر خطرے کا ذکر کیا تھا۔ اس تقریر میں ملک کا نام نہیں لیا اور الفاظ کا بھی محتاط چناؤ کیا جب کہ جو پیپر لہرایا گیا وہ سائفر کی پیرا فریزڈ کاپی تھی۔

'ہمیں کہا گیا میر صادق اور میر جعفر کہنا بند کرنا ہوگا'

اس پلان کا مقصد جنرل باجوہ کو پیغام دینا تھا کہ اگر سازش ہوئی تو تمام پلان ایکسپوز کر دیا جائے گا۔

ان کے بقول، ڈونلڈ لو کی جانب سے سائفر جنرل باجوہ کے نام تھا کیوں کہ آرمی چیف کے پاس ہی ہماری حکومت گرانے کی طاقت تھی، اس وقت سندھ ہاؤس میں بولیاں لگیں اور ایک ایک ایم این اے کی قیمت 20 کروڑ فکس کی گئی۔

عمران خان کے مطابق "جب ہماری حکومت گرائی گئی اور میں عوام میں گیا تو عوام کا ردِ عمل تاریخی تھا، کچھ ماہ بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی 37 میں سے 30 نشستیں جیتی۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کریش کر رہی تھی، ملک میں مہنگائی تاریخی 38 فی صد پر پہنچ گئی تھی، گروتھ ریٹ گر کر چھ اعشاریہ سات سے منفی میں چلا گیا تھا اور بے روزگاری بڑھنا شروع ہو گئی تھی۔"

سابق وزیرِ اعظم کے مطابق ملکی حالات پر جنرل باجوہ نے کہا کہ وہ الیکشن کی کوشش کریں گے تاہم ہمیں حکومت کے خلاف سازش پر بات کرنا بند کرنا ہوگا اور میر صادق اور میر جعفر کہنا بھی بند کرنا ہوگا۔

عمران خان کے مطابق جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت سے کوئی نہیں روک سکتا، 80 فی صد فوج پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ لیکن اگر ہم خاموش نہ ہوئے تو ہمیں 30 نشستوں تک محدود کر دیا جائے گا اور مقدمات بنائے جائیں گے۔

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ نے اگست 2022 میں کہا تھا کہ مجھ پر اور شاہ محمود قریشی پر سیکریٹ ایکٹ کے تحت بھی کیس ہوگا جب کہ ہماری حکومت اپریل 2022 میں گرائی گئی۔

سابق وزیرِ اعظم نے اپنے بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ جنرل باجوہ نے شہباز شریف کے ساتھ ملازمت میں توسیع کا معاہدہ کر رکھا تھا جس کے نتیجے میں شہباز شریف کے اربوں روپے کے کرپشن کیسز کی رفتار سست کر دی گئی اور میں اس بارے میں کہتا رہا کہ رجیم چینج کی انکوائری ہونی چاہیے۔

سابق کور کمانڈر منگلا لیفٹننٹ جنرل طارق کو اس بارے میں تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تو انہوں نے کیس سٹڈی کے بعد انکوائری سے صاف انکار کر دیا کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ انگلی آرمی چیف کے اوپر اٹھائی جا رہی ہے۔

ان کے مطابق "ہم نے سائفر اپوزیشن کے تمام لیڈرز کو پیش کیا تھا کہ وہ خود دیکھ لیں، یہی سائفر چیف جسٹس کو بھی بھیجا گیا، لیکن وہ سب آرمی چیف کے آفس سے ڈرے ہوئے تھے اور اس طرح کوئی انکوائری عمل میں نہیں لائی گئی۔"

عمران خان نے کہا کہ جنرل باجوہ کی دھمکی کے عین مطابق مجھ پر 200 کیسز درج کیے گئے، میرے خلاف یہ کیس اس لیے بنایا گیا کہ جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو کے حوالے سے میرا منہ بند کر دیا جائے اور تنقید کو خاموش کرا دیا جائے۔ میری پارٹی اور مجھے سبق سکھایا جا رہا ہے کہ طاقتور آرمی چیف کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت کیسے ہوئی۔

سابق وزیرِ اعظم نے اپنے بیان میں کہ اکہ "اگر مجھے سزا دی جاتی ہے تو کوئی وزیرِ اعظم پاکستان کے عوام کے مفاد میں اور امریکہ کے غیر منصفانہ مطالبات کے سامنے کھڑا نہیں ہو گا۔ یہ کیس طے کرے گا کہ ایک وزیرِ اعظم کو اپنے ملک کے مفاد میں کھڑا ہونا چاہیے یا امریکہ کی چاپلوسی میں عوامی مفاد کو قربان کرنا چاہیے۔"

یاد رہے کہ امریکہ بارہا اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کا عمران خان کی حکومت گرانے میں کوئی کردار ہے۔

سائفر کیس میں فردِ جرم عائد ہوئی یا نہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:08 0:00

عمران خان نے سائفر کیس میں اپنے بیان میں کہا "ہمارے ملک کی تاریخ ہے کہ ہم نے امریکہ کے احکامات پر قومی مفاد کو قربان کیا، جنرل مشرف نے امریکہ کی ایک فون کال پر پاکستان کو دہشت گری کی جنگ میں دھکیل دیا، میں اس کا گواہ ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار جانیں گئیں اور 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ آصف زرداری اور نواز شریف دور میں 400 ڈرون حملے ہوئے جس میں پاکستانی شہریوں کی جانیں گئیں، تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ملک پر اس کا اپنا ہی اتحادی بم برسائے۔"

عمران خان نے جنرل باجوہ پر الزامات عائد کیے جن کا ان کی طرف سے براہ راست کوئی جواب نہیں دیا گیا لیکن ان سے ملنے والے بعض صحافیوں کے مطابق انہوں نے خود پر عائد تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے بھی عمران خان حکومت کے خلاف فوج کی طرف سے کوئی سازش کرنے کے الزامات کی تردید کی تھی۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی ماضی میں عمران خان کی طرف سے ڈونلڈ لو اور ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے الزامات کی تردید کی تھی۔

عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے حوالے سے حالیہ دنوں میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں سوال کے جواب میں کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت ان کے پاس 172 ووٹ نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوئی تھی۔ عدم اعتماد کی تحریک کے جواب میں اگر وہ 172 ووٹ حاصل کرلیتے تو وہ وزیرِ اعظم رہتے لیکن اگر ان کے پاس یہ مطلوبہ تعداد نہ تھی تو اس کے جواب میں انہیں اپوزیشن میں بیٹھ جانا چاہیے تھا لیکن عمران خان نے سڑکوں پر آنا مناسب سمجھا اور ملک میں سیاسی عدم استحکام اور انتشار پیدا ہوا۔

فورم

XS
SM
MD
LG