رسائی کے لنکس

فلسطینی علاقوں میں امدادی کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی کیا ہے؟


غزہ کی پٹی کے قصبے خان یونس میں یو این آر ڈبلیو اے کے ایک سکول میں غزہ سے بے گھر ہونے والے پناہ گزیں ٹہرے ہوئے ہیں۔ امدادی ایجنسی انہیں انسانی امداد فراہم کرنے کی کوشش کرر ہی ہے۔ 25 اکتوبر 2023
غزہ کی پٹی کے قصبے خان یونس میں یو این آر ڈبلیو اے کے ایک سکول میں غزہ سے بے گھر ہونے والے پناہ گزیں ٹہرے ہوئے ہیں۔ امدادی ایجنسی انہیں انسانی امداد فراہم کرنے کی کوشش کرر ہی ہے۔ 25 اکتوبر 2023

اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں امدادی کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی ’UNWRA‘پر اس الزام کے بعد کہ اس کے تقریباً ایک درجن ملازم اسرائیل پر حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں ملوث تھے، امریکہ سمیت کئی ملکوں نے امدادی ایجنسی کی فنڈنگ بند کر دی ہے اور اس کا کردار زیر بحث آ گیا ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کا نام یونائیٹڈ نیشن ریلیف اینڈ ورکس یعنی یو این آر ڈبلیو اے ہے۔ یہ ایجنسی 13 ہزار سے زائد افراد کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں لاکھوں ضرورت مندوں کو انسانی امداد اور خدمات مہیا کرتی ہے۔

غزہ میں یہ ایجنسی اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران اور اس سے پہلے بھی، شہریوں کو خوراک، پانی اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کا سب سے اہم ادارہ ہے۔

اسرائیل نے 6 صفحات پر مبنی ایک دستاویز میں الزام لگایا ہے کہ ادارے کے 190 اہل کار حماس اور اسلامک جہاد کے لیے کام کرتے ہیں اور ایک درجن کے لگ بھگ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں ملوث تھے۔

اسرائیل نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ حماس اور عسکری گروپ اس ایجنسی کی تنصیبات کو اسرائیل کے خلاف فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

یواین آرڈبلیو اے نےان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ان اہل کاروں کے خلاف فوری کارروائی کی ہے جن پر حملے میں حصہ لینے کا الزام ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے کہا ہے کہ غزہ میں 20 لاکھ فلسطینی یعنی وہاں کی 87 فی صد آبادی یو این آر ڈبلیو اے کی خدمات پر انحصار کرتی ہے۔ اور اگر ایجنسی کی فنڈنگ بحال نہ ہوئی تو وہ فروری کے آخر تک کام کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔

یو این آرڈبلیو اے کب قائم ہوئی؟

اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد اسرائیل کے قیام کے وقت بے گھر ہونے والے اندازاً سات لاکھ فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنا تھا۔

1948 میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اب بڑھ کر 60 لاکھ کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں بکھرے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جانے کا حق رکھتے ہیں۔

اسرائیل انہیں واپسی کا حق دینے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اگر وہ سب واپس آ جاتے ہیں تو اسرائیل میں فلسطینیوں کی اقلیت اکثریت میں بدل جائے گی۔فلسطینی پناہ گزین اور ان کی اولاد کی واپسی وہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جو خطے میں قیام امن کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

یو این آر ڈبلیو اے، پناہ گزین کیمپوں میں اسکول، صحت کے مراکز، انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں اور امدادی پروگرام چلاتی ہے۔ غزہ، مغربی کنارے، لبنان، شام اور اردن میں قائم یہ پناہ گزیں کیمپ انتہائی گنجان آباد ہیں جہاں اپنے پروگرام چلانے کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی نے ہزاروں لوگوں کو ملازم رکھا ہوا ہے۔ صرف غزہ میں ایجنسی کے ملازموں کی تعداد 13 ہزار ہے جن میں اکثریت فلسطینیوں کی ہے۔

اسرائیل حماس جنگ کے نتیجے میں غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے 85 فی صد اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکی ہےاور ان میں سے 10 لاکھ کے لگ بھگ فلسطینی یو این آر ڈبلیو اے کے اسکولوں اور دیگر تنصیبات میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

اسرائیل اور دیگر ناقدین عالمی ایجنسی پر کیا الزام لگاتے ہیں؟

اسرائیل یو این آر ڈبلیو اے پر حماس کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ حماس کی کارروائیوں پر اپنی آنکھیں بند رکھتی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ حماس کی زیر زمین سرنگوں کا جال اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کی تنصیبات کے نیچے قائم ہیں۔

اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ایجنسی کے اسکولوں میں بچوں کو اسرائیل کے خلاف نفرت سکھائی جاتی ہے۔

یو این آر ڈبلیو اے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایجنسی کے پاس اپنے نظام کو محفوظ رکھنے کا بندوبست موجود ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کسی بھی غلط کام کے الزام کی مکمل چھان بین کرتا ہے اور ملوث افراد کو جواب دہ ٹہراتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ وہ اپنے تمام عملے کی تفصیلات اسرائیل اور میزبان ممالک کو فراہم کرتا ہے۔

اسرائیلی انٹیلیجینس دستاویز میں اقوام متحدہ کی ایجنسی کے درجن بھر ملازموں پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں حصہ لیا تھا۔ الزام کے مطابق سات اہل کار حملہ کرنے والوں میں شامل تھے جب کہ دو ملازم یرغمال بنائے جانے کی کاروائی میں شریک تھے۔

اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان واقعات میں ملوث اقوام متحدہ کی ایجنسی کے دو ملازم مارے جا چکے ہیں۔

اسرائیلی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی کے 190 ملازم عسکریت پسند گروپوں کے رکن ہیں۔ تاہم اس بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

اقوام متحدہ کے سربراہ گوتریس نے کہا ہے کہ یو این آر ڈبلیو اے کے نو اہل کاروں کو فوری طور پر برطرف کر دیا گیا ہے اور انہیں جوابدہی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔

اسرائیل نے اپنے الزامات کو عام افراد کے لیے جاری نہیں کیا اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی دستاویز میں جن افراد کے نام دیے گئے ہیں فوری طور پر ان کی شناخت کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔

یو این آر ڈبلیو اے نے 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے تمام یرغمالوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نین یاہو بارہا کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی کو بند کردیا جائے۔تاہم اگر یو این آر ڈبلیواے کو بند کر دیا گیا تو کوئی اور ادارہ اس خلا کو جلد بھر نہیں سکے گا۔

غزہ کے لیے فنڈنگ کی معطلی

امریکہ یو این آر ڈبلیو اے کو سب سے زیادہ فنڈز فراہم کرنے والا ملک ہےجس نے 2022 میں امدادی ایجنسی کو 34 کروڑ ڈالر فراہم کیے تھے۔

برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، جاپان اور اٹلی بھی فنڈنگ معطل کرنے والے ملکوں میں شامل ہیں۔ ان ممالک نے 2022 میں کل امداد کا 60 فی صد سے زیادہ فراہم کیا تھا۔

ناورے اور آئرلینڈ نے کہا ہے کہ وہ یواین آر ڈبلیو اے کی مالی امداد جاری رکھیں گے۔

اسرائیل حماس جنگ کے دوران یواین آر ڈبلیواے کے 150 سے زیادہ ملازم ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ ایک ایسا تنازع ہے جس میں اقوام متحدہ کے سب سے زیادہ کارکن ہلاک ہوئے ہیں۔

(اس رپورٹ کے لیے تفصیلات اے پی اور رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG