رسائی کے لنکس

بھارتی حکام کی ماسکو میں طالبان وفد سے ملاقات، 'نئی دہلی دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتا'


طالبان کے عبوری نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی اور ان کے وفد کے ارکان ماسکو کانفرنس میں شریک ہیں۔ 20 اکتوبر 2021
طالبان کے عبوری نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی اور ان کے وفد کے ارکان ماسکو کانفرنس میں شریک ہیں۔ 20 اکتوبر 2021

افغانستان کے معاملے پر بھارت نے اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت کے ایک وفد نے دوسری مرتبہ طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کی ہے جب کہ ماہرین ان ملاقاتوں کو درست سمت کی جانب اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔

بھارتی وفد اور افغان رہنماؤں کی یہ ملاقات روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغانستان کی صورتِ حال پر منعقد ہونے والی کانفرنس کے موقع پر بدھ کو ہوئی۔

رپورٹس کے مطابق بھارتی وفد میں وزارتِ خارجہ میں افغان امور کے انچارج، جوائنٹ سیکرٹری جے پی سنگھ اور جوائنٹ سیکرٹری (یوریشیا) آدرش سوائیکا شامل تھے جب کہ طالبان حکومت کی جانب سے نائب وزیرِ اعظم عبد السلام حنفی تھے۔

طالبان کے ذرائع کے مطابق بھارتی وفد نے انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی امداد پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ تاہم بھارت کی جانب سے اس بارے میں تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔

یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے اگلے ماہ افغانستان کی صورتِ حال پر نئی دہلی میں ایک اجلاس منعقد کرنے کا قوی امکان ہے۔ نئی دہلی میں منعقد ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا اجلاس ہو گا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں پاکستان اور چین سمیت روس، تاجکستان اور ازبکستان کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ماسکو میں ہونے والی ملاقات گزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے عبوری کابینہ کے اعلان کے بعد فریقین کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ اس سے قبل 31 اگست کو دوحہ میں بھارتی نمائندے نے طالبان رہنما شیر محمد استنکزئی سے ملاقات کی تھی جو بھارت اور طالبان کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ تھا۔

طالبان کے بھارت سے رابطوں کو پاکستان کیسے دیکھتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:29 0:00

ماسکو میں فریقین کے درمیان ملاقات کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ بھارتی نمائندوں نے افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

کچھ دیر کے بعد طالبان ترجمان نے ایک مختصر بیان بھی جاری کیا اور کہا کہ فریقین نے اس پر غور کیا کہ فریقین کی تشویش پر توجہ دینے اور سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ترجمان کے مطابق جے پی سنگھ نے بھی کہا کہ بھارت انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔

اگرچہ بھارت کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن ذرائع نے اس کی تصدیق کی ہے کہ بھارت نے مالی بحران سے دوچار افغانستان کی انسانی بنیادوں پر مدد کا وعدہ کیا ہے۔

اگرچہ بھارت کی جانب سے کسی مقررہ رقم کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن نئی دہلی کے اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت 50 ہزار میٹرک ٹن گیہوں بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔

افغانستان کی صورتِ حال پر ماسکو کانفرس؛ ترجیحات کیا ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:47 0:00

صحیح سمیت میں درست قدم

سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ماسکو میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر بھارتی نمائندوں کی طالبان نمائندے سے ملاقات صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔

اُن کے بقول بھارت پہلے بھی افغان عوام کی مدد کرتا رہا ہے اور اس نے وہاں متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام بھی کیا ہے اور اب بھی کئی منصوبے نامکمل ہیں۔

ان کے مطابق اب اگر بھارت انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی مدد کرتا ہے تو ان کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک اچھا قدم ہے۔ بھارت کو طالبان سے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر بھارت طالبان سے تعلقات قائم نہیں کرتا ہے تو پاکستان سے طالبان کے رشتوں کی وجہ سے یہ خدشہ ہے کہ طالبان حکومت پر پاکستان اثرانداز ہو جائے گا۔ یہ صورتِ حال بھارت کے لیے نقصان ہو گی۔

یاد رہے کہ پاکستان اور طالبان نے ایسے کسی امکان کو رد کیا ہے۔

راجیو ڈوگرہ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے حوالے سے بھارت کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ نہ تو ماسکو اجلاس میں شرکت کرتا اور نہ ہی افغانستان کے معاملے پر نئی دہلی میں کسی اجلاس کے انعقاد پر غور کرتا۔

ان کے مطابق بھارت دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ جب دنیا کے متعدد ممالک افغانستان کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں تو بھارت کو تو اور زیادہ غور کرنا پڑے گا کیونکہ افغانستان اور بھارت میں دوستانہ مراسم رہے ہیں اور افغانستان میں بھارت کے مفادات داؤ پر لگے ہیں۔

ان کے خیال میں کچھ تجزیہ کاروں کی یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ جب امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کیے تو پھر بھارت کو بھی کرنے چاہیے تھے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان کے بارے میں بھارت کے تلخ تجربات رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے۔

راجیو ڈوگرہ نے کہا کہ اس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو گئی ہے اور اب وہاں ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

اُن کے بقول لگتا ہے کہ جب تک کوئی دوسری طاقت نہیں ابھرتی طالبان وہاں برسرِاقتدار رہیں گے۔ ان حالات میں دنیا کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے، کیا اب افغانستان سے رشتہ توڑ لیا جائے اور اسے تنہا چھوڑ دیا جائے؟

ان کے بقول اگر طالبان کی وجہ سے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے تو افغان عوام کا کیا ہو گا۔ لہٰذا دنیا کے ممالک یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہیے کہ افغان عوام کی مدد کی جائے تاکہ ان کی مشکلات کم ہوں۔

راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ اس وقت افغانستان کو دنیا کی توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر طالبان کو الگ تھلگ چھوڑ دیا جاتا ہے تو دہشت گردی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اگر ان سے رابطہ رہے گا تو ان کو یہ محسوس ہو گا کہ دنیا ہمارے ساتھ ہے اور پھر ان کی سوچ میں تبدیلی آ سکتی ہے اور وہ انتہا پسندی کا راستہ ترک کر سکتے ہیں۔ دنیا کو اس سلسلے میں مثبت انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماسکو میں افغانستان کے مسئلے پر اجلاس ہوا ہے، بھار ت میں بھی افغانستان کے مسئلے پر اجلاس ہونے والا ہے۔ ادھر اس سے قبل امریکہ نے دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کر کے ان سے معاہدہ کیا۔ اقوامِ متحدہ بھی اپنے نمائندے بھیج رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ممالک طالبان حکومت کے لیے نرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر طالبان خود کو بدلتے ہیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں تو ایک وقت آئے گا جب دنیا کے ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں مثبت انداز میں غور و فکر کریں گے اور ممکن ہے کہ ایک دن طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا جائے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG