رسائی کے لنکس

بھارت: سی اے اے کے ضوابط کے بغیر بھی غیر مسلم افراد کو شہریت دینے کا عمل شروع


بھارت میں سی اے اے سمیت دیگر قوانین کے خلاف اقلیتیں طویل عرصے تک احتجاج کرتی رہی ہیں- (فائل فوٹو)
بھارت میں سی اے اے سمیت دیگر قوانین کے خلاف اقلیتیں طویل عرصے تک احتجاج کرتی رہی ہیں- (فائل فوٹو)

بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نےایک سرکاری اعلان جاری کیا ہے جس کے تحت پانچ ریاستوں گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیر مسلم شہریوں کو بھارت کی شہریت دینے کا عمل شروع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

گزشتہ ماہ 28 مئی کو جاری ہونے والے سرکاری اعلان کے تحت ​ان پانچ ریاستوں کے 13 اضلاع میں شہریت دینے کا عمل شروع کیا جائے گا۔

دسمبر 2019 میں پارلیمنٹ سے منظور کردہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے ضوابط ابھی واضح نہیں ہیں۔ البتہ حکومت نے اس قانون کے بجائے 1955 اور 2009 کے شہریت قوانین کے تحت کارروائی کا حکم دیا ہے۔

حکومت نے 13 اضلاع کے کلیکٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ تینوں ملکوں کے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی مذاہب کے افراد کی درخواستیں آن لائن قبول کریں اور ان کی تصدیق کے بعد انہیں شہریت دیں۔

مودی حکومت نے سی اے اے کے ضوابط وضع کرنے کے سلسلے میں گزشتہ ماہ پارلیمنٹ سے تیسری توسیع کی اجازت طلب کی تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ کرونا وبا کی وجہ سے وہ ضوابط طے نہیں کر پا رہی۔

وزیرِ داخلہ امت شاہ نے چند ماہ قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں ویکسی نیشن کا عمل ختم ہونے کے بعد سی اے اے پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔

عام طور پر جب پارلیمنٹ سے کوئی قانون منظور ہوتا ہے تو چھ ماہ کے اندر اس کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حکومت نے جنوری 2020 میں سی اے اے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

حزبِ اختلاف اور مسلم تنظیموں کی مخالفت

حزبِ اختلاف اور بعض مسلم تنظیموں نے حکومت کے حالیہ قدم کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے مودی حکومت پر ’چور دروازے‘ سے سی اے اے نافذ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ شہریت ترمیمی قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ حالاں کہ ابھی تک تو سی اے اے کے آئینی جواز کے حوالے سے عدالت میں دائر درخواستوں کی سماعت ہی شروع نہیں ہوئی اور مرکزی حکومت نے اس کے ضابطے بھی وضع نہیں کیے۔

'شہریت قانون ہندوستان کے نظریے کے خلاف ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:38 0:00

سیتا رام یچوری کا مزید کہنا تھا کہ مودی حکومت نے جس طرح حکم جاری کیا ہے اس پر سپریم کورٹ کو فوراً کارروائی کرنی چاہیے اور متنازع قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش کو روک دینا چاہیے۔

بائیں بازو کے ایک اور رہنما کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سیکریٹری ڈی راجا کے مطابق کرونا وبا کے سبب مظاہروں پر پابندی عائد کیے جانے سے قبل تک متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے تھے اور بعض مقامات پر حکومت نے ان مظاہروں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ کچل دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شہریت دینے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کرنے کے حکومت کے فیصلے سے اس کی بے حسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسے وقت پر بھی گریز نہیں کر رہی جب کرونا وبا کی وجہ سے ہر روز ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس سے حکومت کے جمہوریت مخالف رویے کا پتا چلتا ہے۔

سی پی آئی (ایم ایل) کے جنرل سیکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے ایک ٹوئٹ کر کے سوال کیا کہ ”ابھی جبکہ سی اے اے کے ضابطے ہی وضع نہیں کیے جا سکے ہیں اس طرح کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے“۔

انہوں نے طنز کرتے ہو ئے کہا کہ انتخابی ریلیو ں میں بی جے پی کے رہنما اسی طرح شہریت تقسیم کر رہے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہر بھارتی شہریوں کے بینک کھاتوں میں 15، 15 لاکھ روپے جمع کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

اس قانون کے خلاف ایک پٹیشنر اور تقریباً دو درجن مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چوں کہ حکومت کرونا وبا پر قابو پانے اور لاکھوں افراد کی زندگیاں بچانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اس لیے وہ اپنی اس ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں اگلے سال ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں بی جے پی کو سخت مقابلے کا سامنا ہوگا اور بی جے پی رہنماؤں کو اندیشہ ہے کہ پارٹی ریاست میں ہار سکتی ہے۔ لہٰذا اس نے سیاسی مقاصد کے تحت یہ قدم اٹھایا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسرے ممالک کے شہریوں کو بھارت کی شہریت دینے کے قوانین پہلے سے ہی موجود ہیں جن کے تحت لوگوں کو شہریت دی جاتی رہی ہے۔ ایک نئے قانون کی ضرورت نہیں تھی۔

ان کے مطابق گزشتہ سات برس کے دوران ساڑھے چھ لاکھ افراد نے بھارت کی شہریت ترک کی ہے اور وہ دوسرے ممالک میں جا کر بس گئے ہیں۔ لیکن حکومت کو ان کی فکر نہیں ہے بلکہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے چند ہزار غیر مسلموں کی فکر ہے۔

نوید حامد کے مطابق حکومت نے فرقہ وارانہ سیاست کی وجہ سے یہ قانون بنایا ہے۔ حکومت اپنے مسلم دشمن نظریات کو آئینی جواز دینا چاہتی ہے۔ اس لیے اس نے تینوں ممالک کے مبینہ طور پر مظلوم مسلمانوں کو شہریت نہ دینے کی بات کہی۔ اس کے علاوہ حکومت کا ایک مقصد جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنا بھی ہے۔

ملک کے معروف قانون دان اور نلسار لا یونیورسٹی حیدر آباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے اپنے یوٹیوب پروگرام ’لیگل اویئرنیس ویب سیریز‘ کے تحت ایک ویڈیو میں حکومت کے اس قدم کی مخالفت کی ہے۔

انہوں نے جہاں سی اے اے کی آئینی و قانونی خامیوں کا ذکر کیا۔ وہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف جو درخواستیں زیرِ التوا میں ہیں حکومت کو ان کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔​

عدالت میں 150 درخواستیں زیرِ غور

سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ میں تقریباً 150 پٹیشنس زیر غور ہیں۔ جس دن یہ قانون منظور ہوا تھا اس کے اگلے روز ہی کیرالا کی ایک سیاسی جماعت انڈین یونین مسلم لیگ نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

انڈین یونین مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہےجس میں شہریت دینے کے مرکزی حکومت کے گزٹ نوٹیفکیشن پر کو روکنے کی اپیل کی گئی ہے.

اس کے بعد کئی جماعتوں اور مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔

کیرالا کی ریاستی حکومت نے بھی اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان تمام درخواستوں کو انڈین یونین مسلم لیگ کی عرضی کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی ایک درخواست دائر کرکے اس معاملے میں فریق بننے کی گزارش کی ہے۔

سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں محض تین سماعتیں ہوئی ہیں۔ عدالت نے سماعت کے دوران اس قانون پر پابندی لگانے سے انکار کیا تھا۔

سی اے اے کے خلاف ملک گیر احتجاج

خیال رہے کہ حکومت کے اس قانون کے خلاف 11 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے طلبہ نے اپنا احتجاج شروع کیا تھا۔ اس کے اگلے روز سے اسی علاقے کی مسلم کالونی شاہین باغ میں خواتین نے اس کے خلاف دھرنا شروع کیا۔

نئی دہلی میں احتجاج فسادات میں تبدیل
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:57 0:00

اس دھرنے کی مقبولیت کی وجہ سے ملک کے متعدد مقامات پر خواتین نے دھرنے دیے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت سی اے اے واپس لے۔ ان دھرنوں میں مسلمانوں کے علاوہ بڑی تعداد میں سیکولر ہندوؤں اور ان کی تنظیموں نے بھی حصہ لیا تھا۔

لیکن کرونا وبا کے زور پکڑنے کے بعد دہلی پولیس نے 25 مارچ 2020 کو شاہین باغ کے دھرنے کو زبردستی ختم کرا دیا تھا۔ یہ دھرنا تقریباً 100 دن تک چلا تھا اور عالمی میڈیا میں اس نے توجہ حاصل کی۔

اس کے ساتھ ہی ملک کے دیگر علاقوں میں چل رہے دھرنوں کو بھی پولیس نے ختم کرا دیا تھا۔

دہلی میں فسادات

مقامی میڈیا کے مطابق بی جے پی کے کارکنوں نے شمال مشرقی دہلی کے جعفرآباد کے علاقے میں چلنے والے دھرنے کو ختم کرانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہاں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک شدگان میں کم از کم 40 مسلمان تھے۔

بی جے پی کے رہنما اس سلسلے میں خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

ان فسادات کے سلسلے میں دہلی پولیس نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے متعدد کارکنوں اور طلبہ کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا تھا اور اب بھی ان کی ضمانت منظور نہیں ہو رہی۔

پولیس کا الزام ہے کہ ان لوگوں نے دہلی میں فسادات کرانے کی سازش تیار کی تھی۔

متعدد عالمی رہنماؤں اور حکومتوں نے بھی سی اے اے کی منظوری کی مخالفت کی تھی۔

یورپی پارلیمنٹ نے بھی اس پر بحث کے بعد ایک قرارداد منظور کرکے اس کی مخالفت کی تھی جس پر بھارت سے سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا۔

حکومت کا مؤقف

جہاں اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر شہریت دیتا ہے جو کہ آئین کے خلاف ہے۔ وہیں حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں بقول اس کے ستائی ہوئی مظلوم اقلیتوں کو شہریت دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔

حکومت کے مطابق ان تینوں ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور ہندو، سکھ، پارسی، جین، بودھ اور عیسائی اقلیت میں ہیں اور وہ مذہب کی بنیاد پر جبر کے شکار ہیں لہٰذا بھارت ان کو شہریت دینا چاہتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG