رسائی کے لنکس

بھارت کشمیر میں 'وی پی این' استعمال کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ کی جزوی بندش کے باعث ورچول پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) استعمال کرنے والوں کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔

پولیس کے مطابق انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے خاص طریقہ استعمال کرنے کی پاداش میں ایک شخص کو گرفتار جب کہ ایک درجن سے زائد افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وسیم مجید ڈار نامی نوجوان جو ضلع کپواڑہ کا رہائشی ہے۔ اس نے وی پی این کے ذریعے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی تھی۔ جس سے نقص امن کا خدشہ تھا۔ لہذٰا وادی میں پولیس نے وی پی این استعمال کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔

سرینگر میں وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل کے مطابق بھارتی پولیس، فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ایسے افراد کو ہراساں کیے جانے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ جو وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔ جن کے موبائل فونز میں وی پی این تھے، انہیں گھنٹوں پولیس اسٹیشنز میں پوچھ گچھ کے لیے بٹھایا گیا۔

وی پی این ایک نیٹ ورک ٹیکنالوجی ہے، جس کے ذریعے کسی بھی صارف کا حساس ڈیٹا محفوظ رہتا ہے۔ اس سہولت کے ذریعے کسی بھی بلاک ویب سائٹ تک محفوظ رسائی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پانچ اگست 2019 کو کیے گئے حکومتی اقدامات کے بعد سوشل میڈیا سائٹس کو بلاک کر دیا گیا تھا۔

گزشتہ دنوں بھارتی کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے خبردار کیا تھا کہ 'وی پی این' کے ذریعے سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی حاصل کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

سرینگر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر انتشار پھیلانے کی کوشش کریں گے، اُن کے خلاف ایکشن ہو گا۔

پولیس ذرائع کے مطابق اس کا سائبر کرائم شعبہ کم و بیش ایک ہزار ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نظر رکھے ہوئے جو افواہیں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سرینگر میں سائبر پولیس اسٹیشن اور عسکریت مخالف یونٹ کے سربراہ طاہر اشرف نے بتایا کہ ایک ہزار کے قریب سوشل میڈیا پروفائلز کو قانون کی خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا گیا جس کے بعد ان کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ان پروفائلز کے ذریعے لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے اور عسکریت پسندوں کو ہیروز کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ لہذٰا انہیں چلانے والوں کو سراغ لگایا جا رہا ہے۔

پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ٹو جی انٹرنیٹ سروس بحال کی گئی۔ لیکن اس دوران یہ افواہ پھیلائی گئی کہ حریت کانفرنس کے سید علی گیلانی انتقال کر گئے ہیں۔ لہذٰا حکومت کو یہ سروس بھی ایک روز کے لیے بند کرنا پڑی۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے 14 جنوری کو ایک حکم نامہ جاری کر کے سوشل میڈیا پر مکمل پابندی عائد کی۔ جس میں 1485 ویب سائٹس کی ایک فہرست جاری کی گئی۔ جن تک رسائی ممکن ہے۔ باقی ماندہ سوشل میڈیا سائٹس بلاک کر دی گئی ہیں۔ جن تک رسائی صرف وی پی این سے ہی ممکن ہے۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق درخواستوں کے فیصلے کے دوران کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت انٹرنیٹ تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG