رسائی کے لنکس

امن، عدم تشدد اور آئین کے تحفظ کے لیے بھارتی خواتین کی انوکھی یاترا


یہ پانچوں قافلے ملک کے الگ الگ علاقوں سے گزر رہے ہیں۔ اس میں شہروں، قصبوں اور دیہات کے 200 مقامات کا احاطہ کیا جائے گا اور 500 پروگرام منعقد ہوں گے۔

بھارت میں خاتون کارکنوں کے ایک گروپ نے امن، عدم تشدد اور آئین کے تحفظ کے لیے پانچ ریاستوں - اترپردیش، آسام، تمل ناڈو، کیرالہ اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ایک انوکھی یاترا شروع کی ہے۔ اس یاترا کا نام ہے "باتیں امن کی۔"

اس یاترا کا آغاز 20 ستمبر کو ہوا تھا اور اختتام 13 اکتوبر کو نئی دہلی میں ایک عوامی ریلی کی شکل میں ہوگا۔

یہ خواتین پانچ مِنی بسوں پر سوار ہیں۔ ہر بس میں 25، 25 عورتیں ہیں۔ مردوں کو اس سے دور رکھا گیا ہے۔

یہ پانچوں قافلے ملک کے الگ الگ علاقوں سے گزر رہے ہیں۔ اس میں شہروں، قصبوں اور دیہات کے 200 مقامات کا احاطہ کیا جائے گا اور 500 پروگرام منعقد ہوں گے۔

اس یاترا کا اہتمام انسانی حقوق کی معروف تنظیموں 'انہد'، 'نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن' اور 'انڈیا انکلیوسیو' نے کیا ہے۔

'انہد' کی شبنم ہاشمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے تین ماہ قبل باقی دونوں تنظیموں کی ذمہ داران سے ملک کی موجودہ صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا اور نفرت، تشدد اور خوف کے ماحول کے خلاف پورے ملک میں امن کارواں نکالنے پر غور کیا۔

انھوں نے کہا کہ آزادی کے بعد غالباً یہ پہلا موقع ہے جب بیک وقت پانچ ایسے کارواں نکلے ہیں۔

ان کے بقول خواتین نہ صرف اپنے حقوق کے بارے میں بلکہ کسان، مزدور، ملازمت پیشہ افراد، طلبہ، غیر منظم شعبےوں، دلت، آدی واسی اور اقلیتیں جن حالات کے شکار ہیں اس پر بھی بات کر رہی ہیں۔ وہ آئین کے تحفظ کے لیے بھی فکرمند ہیں۔

شبنم ہاشمی نے مزید کہا کہ آج بھارت میں خوف کا ماحول بنا دیا گیا ہے۔ آئینی اقدار پر حملے ہو رہے ہیں اور جو کوئی بعض طبقات کے حق میں نہ بولے، اسے غدار قرار دے دیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے چار ججوں نے عوام سے آئین کو بچانے کی اپیل کی۔ اس لیے ہم نے اس پروگرام کا فیصلہ کیا۔

ان کے بقول ہم نے سوچا کہ جب خواتین نکل کر آئیں گی اور آواز بلند کریں گی تو عام لوگوں میں بھی ظلم کے خلاف بولنے کی ہمت پیدا ہوگی۔

کاررواں کی ایک اور منتظم عینی راجہ کے مطابق موجودہ حکومت نے عورتوں کو دھوکہ دیا ہے۔

ان کے بقول خواتین ”باتیں امن کی“ کے پلیٹ فارم سے ان تمام طاقتوں کے خلاف کھڑی ہیں جو مذہب اور مبینہ قوم پرستی کے نام پر ملک کو توڑنا چاہتی ہیں۔

پروگرام کے منتظمین کے مطابق کاررواں میں کسی بھی سیاست دان کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

خواتین کا دعویٰ ہے کہ یہ قافلے جہاں جہاں سے گزر رہے ہیں وہاں مقامی تنظیمیں بھی ساتھ آ رہی ہیں اور یہ تمام لوگ رقص، موسیقی، ڈرامہ، تقریر، تبادلۂ خیال اور دیگر سرگرمیوں کے توسط سے امن کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG