رسائی کے لنکس

جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے، رپورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

انسانی حقوق سے متعلق ماہرینِ قانون کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) نے پاکستان میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے عالمی معیار کے مطابق کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

عالمی تنظیم کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم کیے جانے والے موجودہ کمیشن کی میعاد آئندہ ہفتے ختم ہو رہی ہے۔

حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ میں تنظیم کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے متعلقہ افراد کی مشاورت سے ایک جامع اور مربوط کمیشن بنانے کی ضرورت ہے جو عالمی معیار کے مطابق ہو۔

یادر ہے کہ حکومتِ پاکستان نے 2011 میں مبینہ طور پر جبری طور پر گمشدہ افراد کے معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جو اب تک سینکڑوں مقدمات نمٹا چکا ہے۔

تاہم آئی سی جی کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اس کمیشن کے ذریعے متعدد افراد بازیاب بھی ہوئے ہیں۔ لیکن کمیشن ایسے واقعات میں ملوث عناصر کا تعین کرنے میں ناکام رہا ہے۔

کمیشن کے مینڈیٹ میں یہ شامل تھا کہ وہ ان واقعات میں مبینہ طور پر ملوث افراد یا اداروں کا بھی تعین کرے۔

عالمی ماہرین کی تنظیم کے ایک عہدیدار تنطیمائن سیڈرمین کا کہنا ہے کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک نو برسوں میں کمیشن کسی کو بھی ایسے واقعات میں ذمہ دار نہیں ٹھیرا سکا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی قوانین کے تحت جبری گمشدگی ایک جرم ہے اور تمام ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے الزامات کی فوری اور غیر جانبدرانہ تحقیقات کرائیں۔

واضح رہے کہ بین الاقوامی کمیشن آف جیوریسٹس (آئی سی جے) انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری بین الاقوامی تنطیم ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے نامور سینئر ججز، وکلا اور ماہرین قانون شامل ہیں، جو انسانی حقوق کے معیار کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔

پاکستان میں لاپتا افراد سے متعلق انکوئری کمیشن کے بارے میں عالمی تنظیم کی رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کی تعداد میں اضافے کی شکایات عام ہیں۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کا معاملہ پھر زیرِ بحث
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:59 0:00

بعض لاپتا افراد کے لواحقین سیکیورٹی اداروں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ تاہم ریاستی ادارے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے سابق سربراہ جسٹس (ر) علی نواز چوہان کہتے ہیں کہ یہ انکوئری کمیشن ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ اس لیے ان کے بقول اس کمیشن کا دائرہ کار محدود ہے۔

ان کے بقول جب تک ایسا ادارہ تشکیل نہیں دیا جاتا ہے جس کا دائرہ اختیار واضح اور مؤثر ہو، اس وقت تک ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔

یاد رہے کہ بعض ماہرین قانونی اور انسانی حقوق کی تنظمیں حکومت سے یہ مطالبہ کرتی آ رہی ہیں کہ جبر ی گمشدگی کو فوجداری جرم قرار دیا جائے۔

پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں بھی قانونی جواز کے بغیر کسی بھی پاکستانی شہری کو تحویل میں رکھنا ایک سنگین جرم قرار دے چکی ہیں۔

جسٹس چوہان کے بقول جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے سے ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔

ان کے بقول اگر کوئی مشتبہ شخص کسی ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جا سکتی ہے۔ جس کے لیے باقاعداہ قوانین موجود ہیں۔

اگرچہ تنظیم کی رپورٹ پر تاحال حکومت کے کسی عہدے دار کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری جبری گمشدگیوں کے واقعات کے تدارک کے لیے حکومت کے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ چکی ہیں کہ حکومت نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے ایک مسودہ قانون تیار کر لیا ہے جس میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG