رسائی کے لنکس

سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ


لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم کارکنوں کا ایک مظاہرہ۔ فائل فوٹو
لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم کارکنوں کا ایک مظاہرہ۔ فائل فوٹو

حکومت سندھ کے محکمہ داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں لاپتا افراد کے 86 فی صد مقدمات کو حل کر لیا گیا ہے۔

جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے کیس سے متعلق یہ رپورٹ حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہے۔

وائس آف امریکہ کو ملنے والی اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں لاپتا افراد کی تعداد 3758 تھی جن میں سے 3238 افراد واپس آ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب بھی 520 مقدمات ایسے ہیں جو حل طلب ہیں جن میں سے 156 لاپتا افراد کے کیسز کی تحقیقات کرنے والے کمشن کے پاس زیر التوا ہیں۔

جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت بھی لاپتا افراد سے متعلق 364 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ان تمام مقدمات اور کمشن میں التواء کیسز کو ملا کر کُل 520 افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں اب تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے مسنگ پرسنز کے 86 فی صد کیسز حل کئے گئے ہیں، جبکہ باقی ماندہ افراد کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے جبری گمشدہ افراد کے 23 خاندانوں کو 5 لاکھ روپے فی کس مالی مدد بھی دی ہے۔

لاپتا افراد سے متعلق کمشن وفاقی وزارت داخلہ نے 2011 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قائم کیا تھا اور صوبہ سندھ سے جبری گمشدہ افراد کے کیسز کی سماعت کمشن نے کراچی اور اسلام آباد میں مختلف اوقات میں کی تھی۔

رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کمشن پاکستان کی کونسل رکن اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں لاپتا افراد مل رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری جانب مزید لوگوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔

زہرہ یوسف نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے فوجداری قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے جب تک شہریوں کو گمشدہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک جبری گمشدگیوں کے واقعات ختم نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے جبری گمشدگیوں پر دستخط کرنا چاہیئیں۔ جو لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں بغیر کسی انتظار کے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور حراستی مراکز میں لوگوں کو رکھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ گمشدہ افراد سے متعلق متحدہ قومی موومنٹ آواز بلند کرتی آئی ہے۔ ایم کیوایم کا دعوی ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکن لاپتا کیے گئے جن میں سے بہت سوں کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔

متحدہ قومی مومنٹ کے لاپتا کارکنوں کی جانب سے عدالتوں میں پیش ہونے والے معروف وکیل مزمل میو ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف ملا ہے اور ان کے پیارے واپس بھی آئے ہیں تاہم اس کے باوجود اب بھی ایم کیو ایم کے 100 سے زیادہ ایسے کارکن موجود ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ ان کے مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان گمشدہ افراد کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

سندھ حکومت کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت نے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کر کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

منگل کے روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت انسانی حقوق سے متعلق ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کہا گیا ہے کہ حکومت قوانین میں ترمیم کر کے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرے گی۔ اور یہ مقدمات ملک کی سول عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔

پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کے واقعات ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جس میں بسا اوقات پولیس، انٹیلی جینس ادارے، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ایسے غیر قانونی اقدمات، غیر آئینی اور انسانی حقوق کے خلاف سرگرمیوں کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ ایسے الزامات کی فوج سختی سے تردید بھی کرتی آئی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG