رسائی کے لنکس

ایرانی انتخابات کے ایک سال بعد کی صورتحال


ایرانی انتخابات کے ایک سال بعد کی صورتحال
ایرانی انتخابات کے ایک سال بعد کی صورتحال

تقریبا ً ایک سال ہوا جب ایران میں صدارتی انتخاب ہوا تھا۔ اس وقت کے صدر نے یہ انتخاب جیت لیا لیکن تہران کی سڑکوں پر اور دوسرے مقامات پر اس نتیجے پر سخت احتجاج ہوئے جنہیں حکومت نے سختی سے کچل دیا۔ اس وقت جو خونریزی ہوئی اور اس کے بعد جو واقعات ہوئے ان کے اثرات آج بھی ایران کے اندر اور باہر محسوس کیے جا رہے ہیں۔

ایک سال پہلے ایرانی معاشرے میں احتجاج کی آوازوں سے جو ہلچل مچی تھی اور جن پر دنیا حیران رہ گئی تھی ، اب بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے ۔ خوف و دہشت، قید و بند اور ہلاکتوں سے ان آوازوں کو خاموش کر دیا گیا ہے ۔ اور جیسا کہ مشرقِ قریب کے امور کے سابق انڈر سیکرٹری رچرڈ مرفی نے کہا ہے ، محمود احمدی نژاد نےجن کے انتخاب سے احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی تھی، اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور ان کا انداز آج بھی اتنا ہی جارحانہ ہے۔

مرفی کہتے ہیں’’ ان ناقدین کو اس پر حیرت ہوئی ہو گی جن کا خیال تھا کہ وہ مسخرے بیوقوف سے آدمی ہیں جنہیں اہمیت دینا ضروری نہیں ہے ۔لیکن سپریم لیڈر اور پاسدارانِ انقلاب نے جلد ہی متحد ہو کر گذشتہ سال ان کے انتخاب پر عمل در آمد کرایا۔ اب تک مجھے کوئی ایسے آثار نظر نہیں آئے ہیں کہ ان کی حمایت میں کوئی رخنہ پیدا ہوا ہو۔‘‘

احتجاج اس لیے شروع ہوئے تھے کیوں کہ بہت سے اصلاح پسندوں کا خیال تھا کہ ان کے پسندیدہ امیدوار، میر حسین موسوی کو انتخاب میں دھاندلی کے ذریعے فتح سے محروم کر دیا گیا ہے ۔ حکومت نے جب ان مظاہروں سے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس کیا تو احتجاج کرنے والوں کو طاقت سے کچل دیا۔ احتجاجی تحریک بتدریج ٹھنڈی پڑ گئی اور بیشتر مخالفین چھپ گئے ہیں یہ جلا وطن ہو گئے ہیں۔

لیکن کانگریشنل ریسرچ سروس کےکِن کاٹزمین کہتے ہیں کہ حکومت مخالف تحریک ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ خاموشی سے دوبارہ منظم ہو رہی ہے ۔’’بعض دھڑوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ قیادت اور تنظیم کے فقدان سے انہیں نقصان پہنچا اور ان کی تحریک کازور ٹوٹ گیا۔ بعض گروپوں نے لیڈرشپ کونسلیں قائم کی ہیں اور ذیلی گروپ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ قائم کر رہے ہیں۔ اس طرح اب انھوں نے خود کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘

ایک طرف حزبِ ِ اختلاف خود کو منظم کر رہی ہے تو دوسری طرف ایرانی حکومت اختلاف رائے کو کچلنے کے عزم پر قائم ہے۔ بین الاقوامی محاذ پر، امریکہ اور اتحادیوں کے مطابق، وہ نیوکلیئر اسلحہ سے لیس طاقت بننے پر تلی ہوئی ہے ۔ سیاسی امور کے سابق انڈر سیکرٹری نکولس برنز جو ایران کے بارے میں بش انتظامیہ کے پالیسی سازی کے عمل میں سرگرم تھے، کہتے ہیں کہ ایرانی حکومت نے ملک کے اندر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے لیکن بیرونی دنیا میں اس کی ساکھ خراب ہو گئی ہے۔

برنز کہتے ہیں’’بد قسمتی سے ، ایسا لگتا ہے کہ ملک کے اندر ، حالات ایرانی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر وہ اور زیادہ الگ تھلگ ہو گئی ہے۔ پچھلی گرمیوں میں ایرانی حکومت کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ یہ حکومت کتنی جمہوریت دشمن ہے اور یہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر وہ اور زیادہ الگ تھلگ ہو گئی اور اس کی ساکھ خراب ہو گئی۔‘‘

ان حالات میں نیوکلیئر مسئلہ اور زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ مغرب اور ایران کے درمیان اصل وجہ نزاع یہی ہے ۔ بعض حلقوں کی طرف سے ایران کےخلاف فوجی کارروائی کی آوازیں کسی حد تک مدھم پڑ گئی ہیں لیکن پوری طرح ختم نہیں ہوئیں۔

اوباما انتظامیہ اس ارادے کے ساتھ بر سرِ اقتدار آئی تھی کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے لیکن مصالحت کی کوششوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔

تا ہم نکولس برنز مُصر ہیں کہ ایران کے ساتھ بات چیت کے امکانات ختم نہیں ہوئے ہیں۔’’ہم ایرانی حکومت کو مطلق پسند نہیں کرتے۔ اس کا انداز فکر منفی ہے اور یہ بڑی سنگدل حکومت ہے ۔ لیکن میرے خیال میں ہمیں اور بین الاقوامی برادری کو وقتا ً فوقتا ً اس سے رابطہ کرنا چاہیئے تا کہ سفارتکاری اور مذاکرات کے موئثر ہونے کے امکانات روشن ہو جائیں۔ میں ڈپلومیسی کو ترک نہیں کروں گا اور میرے خیال میں ہم نے رابطے کی کوششوں کو ترک نہیں کیا ہے۔ لیکن میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی پالیسی میں بہت سے مختلف عناصر کو شامل کرنا چاہیئے ۔یعنی پابندیاں اور مذاکرات اور مزید دباؤ تا کہ ایران سلامتی کونسل کے بارے میں اپنی ذمہ داریاں پور ی کرے۔‘‘

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کے خلاف پابندیوں کے چوتھے راؤنڈ کی منظوری دے دی ہے ۔ تا ہم بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور چین کی حمایت حاصل کر نے کے لیے پابندیوں کو بہت نرم کرنا پڑا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ایرانی حکومت کے خلاف یہ پابندیاں زیادہ موئثر ثابت نہیں ہو ں گی۔

XS
SM
MD
LG