رسائی کے لنکس

ایران کے جوہری عزائم پر امریکہ اور اسرائیل میں اختلاف


ایران کے جوہری عزائم پر امریکہ اور اسرائیل میں اختلاف
ایران کے جوہری عزائم پر امریکہ اور اسرائیل میں اختلاف

تہران، یروشلم اور واشنگٹن میں ایک بار پھر ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایران کے مبینہ جوہری عزائم کے بارے میں اسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے، اور کم از کم ایک امریکی عہدے دار نے انتباہ کیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملہ زیادہ دور نہیں، لیکن امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اس نکتے پر اختلاف ہے کہ کیا ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ کر لیا ہے۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع ایہود بارک کا کہنا ہے ہیں کہ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے دنیا کے پاس وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے۔

ایک امریکی اخبار کے کالم نگار نے ایہود بارک کے امریکی ہم منصب وزیرِ دفاع لیون پنیٹا کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل اپریل اور جون کے درمیان ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے شروع کر دے گا۔

تہران میں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنائی نے انتباہ کیا ہے کہ اگر اس قسم کے حملے ہوئے تو ایران جوابی کارروائی کرے گا۔

لیکن ایران کے جوہری عزائم کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔

ایران کے بارے میں امریکہ کی تمام اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسیوں کے 2007ء کے مجموعی جائزے ’یو ایس نیشنل انٹیلی جنس ایسٹیمیٹ‘ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے تکنیکی شعبے میں پیش رفت تو کی ہے لیکن اس نے اب تک جوہری ہتھیار بنانے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

2009ء میں وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا نے کہا تھا کہ ایران 2010ء اور 2015ء کے درمیان جوہری بم بنا سکتا ہے، لیکن اس نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ یہ آخری قدم اٹھایا جائے یا نہیں۔

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا

’’ہمارا خیال اور ہماری انٹیلی جنس یہ ہے کہ اگرچہ وہ نیوکلیئر توانائی اور نچلی گریڈ کے یورینیم کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں، لیکن ابھی ایران کے اندر یہ بحث جاری ہے کہ انہیں اس کے آگے جانا چاہیئے یا نہیں۔‘‘

گزشتہ سال ایک نیا، نظرِ ثانی شدہ اندازہ لگایا گیا۔ اگرچہ اسے عام لوگوں کے لیے تو جاری نہیں کیا گیا، لیکن نجی طور پر عہدے دار کہتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کی سمت کے بارے میں 2007ء اور 2011ء کے اندازوں کے درمیان بہت کم فرق ہے۔

منگل کے روز کانگریس کے سامنے بیان دیتے ہوئے نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائرکٹر جیمز کلیپر نے واضح کیا کہ ایران کے لیڈروں نے اپنے لیے تمام راستے کھلے رکھے ہیں۔

’’وہ یقیناً اس راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ انھوں نے نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کیا ہے۔‘‘

لیکن اسرائیل میں اندازِ فکر بہت مختلف ہے۔ وہاں ایران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ میں ایک اسرائیلی صحافی کا ایک اہم مضمون شائع ہوا ہے جس میں یروشلم میں چوٹی کے اسرائیلی عہدے داروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل مزید انتظار کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا اور امکان یہی ہے کہ وہ اس سال ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔

’’ایران نے یورینیم کو 20 فیصد کی سطح تک افزودہ کر لیا ہے۔ لیکن ہتھیاروں میں استعمال ہونے کے لیے یورینیم کم از کم 90 فیصد کی حد تک افزودہ ہونا چاہیئے اور ایران ابھی اس سطح پر نہیں پہنچا ہے۔‘‘

تھامس فنگر جو امریکہ کے سابق اعلیٰ انٹیلی جنس افسر اور یو ایس انٹیلی جنس کونسل کے سابق چیئرمین ہیں، کہتے ہیں کہ اسرائیل بہت زیادہ نروس ہو رہا ہے کیوں کہ اب ایران جوہری اسلحہ بنانے کی منزل کے قریب پہنچ گیا ہے، اگرچہ اس نے اب تک بم بنانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

’’اگر ایران واقعی بم بنانے کے گریڈ کا یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اور میں نے اب تک کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ ہم جانتے ہیں، یا ہمیں شبہ ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں، تو پھر وہ بم بنانے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔‘‘

اوباما انتظامیہ اس مرحلے پر ایران کے خلاف کسی فوجی کارروائی کے خلاف ہے، اور اس کے بجائے اس کی توجہ اس بات پر ہے کہ ایران کے خلاف اس کی تیل کی صنعت پر سخت بین الاقوامی پابندیاں عائد کر دی جائیں۔

تھامس فنگر کہتے ہیں کہ ایران پر حملے سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس طرح ایران کا ارادہ اور مضبوط ہو سکتا ہے اور حکومت کے لیے عوامی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

’’اگر یہ صحیح ہے کہ ایران نے اب تک بم بنانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، تو اس کی تنصیبات پر حملے سے اس بات کا امکان بہت بڑھ جائے گا کہ نہ صرف نیوکلیئر پروگرام اور حکومت کو عوامی حمایت حاصل ہو جائے گی، بلکہ دوسروں کو حملوں سے باز رکھنے کی صلاحیت، نیوکلیئر طاقت کی صلاحیت حاصل کرنے کے ضرورت کا احساس پیدا ہو جائے گا۔‘‘

انٹیلی جنس کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ ایران کب خطرے کی لائن پار کر کے جوہری بم بنانے کی حد میں داخل ہو جائے گا کیوں کہ بہت سا تکنیکی کام فوجی اور پُر امن دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

ڈیوڈ پیٹریس اور جیمز کلیپر
ڈیوڈ پیٹریس اور جیمز کلیپر

سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریس نے اس ہفتے کہا کہ ایک اہم اشارہ یہ ہوگا کہ کیا ایران نے اپنے یورینیم کو 90 فیصد تک افزودہ کر لیا ہے۔

’’اگر وہ یورینیم کو 20 فیصد سے زیادہ افزودہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو یہ بڑا اہم قدم ہو گا۔ 20 فیصد کی حد تک افزودہ شدہ یورینیم بھی ان کی ضرورت سے زیادہ ہے، مثلاً مستقبلِ قریب میں تہران ریسرچ ری ایکٹر کے لیے بھی 20 فیصد افزودہ شدہ یورینیم کافی ہے۔‘‘

اسرائیل کے لیے خطرے کی لائن، یا سرخ لائن کیا ہے، اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ لیکن ڈر یہ ہے کہ ایران اپنی جوہری تنصیبات کو سخت زیرِ زمین مقامات میں منتقل نہ کر دے جن پر مزائلوں اور بموں کے حملے بے اثر ہوں گے۔

اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک
اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک

آخری حد چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، اسرائیل کے وزیرِ دفاع بارک نے کہا ہے کہ اسرائیل اس حد تک پہنچنے کا انتظار نہیں کر سکتا۔ اُنھوں نے کہا کہ جو کوئی بھی بعد میں کارروائی کی بات کرتا ہے، ہو سکتا ہے کہ اسے پتہ چلے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ اور شاید اس نکتے کو مغربی ملکوں کے لوگوں تک پہنچانے کے لیے، انھوں نے یہ آخری جملہ، عبرانی زبان میں نہیں، انگریزی میں ادا کیا۔

XS
SM
MD
LG