رسائی کے لنکس

تہران حملوں کی تحقیقات جاری، امریکہ کا مذمتی بیان مسترد


حملوں کے ایک روز بعد تہران میں سکیورٹی انتہائی سخت ہے
حملوں کے ایک روز بعد تہران میں سکیورٹی انتہائی سخت ہے

ایران نے گزشتہ روز تہران میں ہونے والے حملوں پر امریکہ کے مذمتی بیان کو "ناخوش گوار" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ خود دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔

وہائٹ ہاؤس نے بدھ کو تہران میں پارلیمان کی عمارت اور ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کے مزار پر ہونے والے حملوں پر مذمتی بیان جاری کیا تھا جس میں ایرانی عوام اور حملے کا شکار ہونے والے افراد سے اظہارِ ہمدردی کیا گیا تھا۔

بیان میں وہائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو ریاستیں دہشت گردی میں معاونت کرتی ہیں وہ بالآخر خود بھی اس کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے جمعرات کو ایک ٹوئٹ میں وہائٹ ہاؤس کےمذمتی بیان کو "ناخوش گوار" قرار دیتے ہوئے کہا ہے ایرانی عوام امریکہ کے دوستی کے دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ امریکہ خود دہشت گردی کو فروغ دینے میں ملوث ہے۔

ایران کے کئی حلقوں نے بھی امریکی بیان پر ناپسندیدگی اور برہمی کا اظہار کیا ہے جب کہ عام افراد بھی اس بیان کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

بدھ کو تہران میں ہونے والے دونوں حملوں میں 13 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی البتہ ایرانی فوج 'پاسدارانِ انقلاب' نے اپنے ایک بیان میں حملے کا الزام بلواسطہ طور پر سعودی عرب پر عائد کیا ہے۔

بدھ کی شب جاری ایک بیان میں ایرانی فوج نے کہا تھا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے کے فوراً بعد ان حملوں کا ہونا خاصا "معنی خیز" ہے۔

بیان کے مطابق سعودی عرب داعش سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کی مستقل مدد کر رہا ہے اور داعش کی جانب سے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ اس بہیمانہ کارروائی میں سعودی عرب کا ہاتھ ہے۔

ایران کےسپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے عرب ملکوں میں جاری خانہ جنگی میں ایرانی مداخلت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران "وہاں مزاحمت نہ کر رہا ہوتا" تو اسے ایسے مزید حملوں کا سامنا کرنا پڑتا۔

جمعرات کو حملوں کے ایک روز بعد تہران میں سکیورٹی انتہائی سخت ہے اور شاہراہوں اور سب وے اسٹیشنز پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔

ایرانی پولیس نے حملوں کی تحقیقات کے سلسلے میں چھ افراد کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔

ایران کی سپریم قومی سلامتی کونسل کے ایک عہدیدار رضا سیف اللہی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ تمام حملہ آور ایرانی تھے۔

XS
SM
MD
LG