رسائی کے لنکس

عراق میں سیاسی تلاطم؛مقتدى الصدرکا سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان


عراق کے با اثر شیعہ عالم اور لیڈر مقتدى الصدر (فائل فوٹو)
عراق کے با اثر شیعہ عالم اور لیڈر مقتدى الصدر (فائل فوٹو)

عراق کے با اثر شیعہ عالم اور لیڈر مقتدى الصدر نے پیر کے روزاعلان کیا ہے کہ وہ نہ ختم ہونے والے سیاسی جمود کو دیکھتے ہوئے سیاست سے دستبردار ہو رہے ہیں اوراپنے اداروں کو بند کر رہے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ ملک میں موجود عدم استحکام میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹر پراپنے بیان میں کہا کہ " یہ میرا حتمی فیصلہ ہے" انہوں نے اپنے ساتھی شیعہ لیڈروں پر بھی تنقید کی کہ انہوں نے ان کی تجویز کردہ اصلاحات پرتوجہ نہیں دی اوراس سلسلے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کہ وہ اپنے کن دفاتر کو بند کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے یہ کہا کہ ان کے مذہبی اور ثقافتی ادارے کھلے رہیں گے۔

مقتدى الصدر اسسے قبل بھی سیاست یا حکومت سے دستبرداری اوراپنی وفادارملیشیاؤں کو ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، لیکن انہوں نے ریاستی اداروں پراپنا وسیع کنٹرول برقرار رکھا۔ اوراب بھی ہزاروں ارکان پرمشتمل ایک نیم فوجی گروپ ان کےپاس موجود ہے۔

وہ اکثراسی طرح کے اعلانات کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں واپس آ تے رہے ہیں، مگرعراق میں موجودہ سیاسی تعطل کودور کرنا پچھلے ادوار کے مقابلے میں مشکل دکھائی دیتا ہے۔

مقتدى الصدراور شیعہ حریفوں کے درمیان موجودہ تعطل کی وجہ سےعراق میں بغیرحکومت کے یہ طویل ترین دور ثابت ہوگا۔

صدر کی جماعت اکتوبر میں ہونے والے انتخابات میں پہلے نمبر پرآئی تھی، لیکن جب وہ اپنی پسند کی حکومت بنانے میں ناکام رہے تو جون میں پارلیمنٹ سے اپنے قانون سازوں کو واپس لے لیا۔ اس وقت انہوں نے ایران کے حامی طاقتورشیعہ حریفوں کو خارج کرنے کی دھمکی دی تھی۔

اس کے بعد ان کے وفاداروں نے بغداد کے مرکزی حکومت کے علاقے پردھاوا بول دیا ۔ وہ اس وقت سے پارلیمنٹ کی عمارت پر قابض ہیں او ر وہ نئے صدراور وزیراعظم کے انتخاب کےعمل کو روکتے رہے ہیں۔

مقتدى الصدرکے حامی مظاہرہ کر رہے ہیں (فائل فوٹو)
مقتدى الصدرکے حامی مظاہرہ کر رہے ہیں (فائل فوٹو)

مقتدى الصدراب قبل ازوقت انتخابات اورپارلیمنٹ کی تحلیل پراصرار کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسا سیاست دان جو 2003 میں امریکی حملے کے بعد سےاقتدارمیں ہے وہ وزیراعظم نہیں بن سکتا۔

الصدر کے اتحادی مصطفیٰ الکاظمی بدستور نگران وزیراعظم کے فرائض انجام دے رہےہیں۔

پیر کے اعلان نے یہ خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ الصدر کے حامی کسی قائد کی عدم موجودگی میں اپنے مظاہروں میں شدت لا سکتے ہیں جس سے عراق مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔

2017 میں اسلامی اسٹیٹ کی شکست کے بعد سے ملک میں بحالی کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں اقتداراورتیل کی وسیع دولت پرایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔

واضح رہے کہ عراق، اوپیک کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔

(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG