رسائی کے لنکس

جہانگیر ترین کا 'ہم خیال گروپ'، حکومت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں حکمراں جماعت تحریکِ انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کی جانب سے قومی اور پنجاب اسمبلی میں ہم خیال گروپ بنانے کے اعلان کے بعد سیاسی اور قانونی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

جہانگیر ترین کے مخالف سمجھے جانے والے تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ارکانِ پارلیمنٹ پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں۔ کیوں کہ خلاف ورزی کی صورت میں مذکورہ اراکینِ کی رُکنیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

البتہ، جہانگیر ترین کا یہ مؤقف ہے کہ پنجاب حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا معاملہ اُن کا گروپ اب پارلیمان میں اُٹھائے گا۔

خیال رہے کہ منگل کی شب لاہور میں جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ہونے والے ایک اجلاس کے دوران پنجاب اسمبلی میں سعید اکبر نوانی جب کہ قومی اسمبلی میں راجہ ریاض کو پارلیمانی لیڈر مقرر کرنے کا اعلان سامنے آیا تھا۔

بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین قانونی طور پر ایسا نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ ایک ہی پارٹی میں رہتے ہوئے الگ گروپ بنانے سے مذکورہ ارکانِ اسمبلی کے خلاف الیکشن کمیشن کے قوانین حرکت میں آ سکتے ہیں۔

بدھ کو لاہور کی بینکنگ کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے وضاحت کی تھی کہ وہ تحریک انصاف میں تھے ہیں اور رہیں گے جب کہ الگ گروپ پارٹی کے اندر کوئی فارورڈ بلاک نہیں بلکہ ایک جیسے خیالات رکھنے والے اراکینِ پارلیمان کا ایک گروپ ہے۔

جہانگیر ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اُنہیں لگ بھگ 30 اراکین کی حمایت حاصل ہے جب قومی اسمبلی میں بھی کئی اراکین اُن کے ساتھ ہیں۔

منگل کی شب جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میں ہم خیال گروپ بنانے کا اعلان کیا گیا۔
منگل کی شب جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میں ہم خیال گروپ بنانے کا اعلان کیا گیا۔

کیا یہ فارورڈ بلاک ہے؟

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دِلشاد احمد سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین کی وضاحت کے باوجود بظاہر پارٹی کے اندر یہ ایک فارورڈ بلاک ہی ہے۔ کیوں کہ ماضی میں ایسے ہی پارٹیوں کے اندر دھڑہ بندی ہوتی رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں الگ پارلیمانی لیڈر مقرر کرنے سے تاثر یہی ملتا ہے کہ یہ الگ دھڑہ ہے جو اپنی پارٹی پالیسی سے اختلاف رکھتا ہے۔

جہانگیر ترین اور ماضی کے ہم خیال گروپ

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین ماضی میں بھی ایک ہم خیال گروپ کا حصہ رہ چکے ہیں جو مسلم لیگ (ق) کی پالیسیوں سے ناراض رہنماؤں نے بنایا تھا۔

حامد میر کے بقول جہانگیر ترین کا شمار نظریاتی سیاست دانوں میں نہیں ہوتا وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنی سیاست کرتے ہیں اور ماضی میں بھی اِسی طرح ہم خیال گروپ کے نام پر ہی وہ لوگوں کو اکٹھا کرتے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ 2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کی شکست کے بعد پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے پارٹی صدر چوہدری شجاعت حسین کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے مسلم لیگ ہم خیال گروپ کے نام سے نیا گروپ بنایا تھا۔

اس گروپ میں جہانگیر ترین کے علاوہ، ہمایوں اختر خان، حامد ناصر چٹھہ اور خورشید قصوری سمیت دیگر رہنما شامل تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ جہانگیر ترین مبینہ چینی اسکینڈل میں وفاقی تفتیشی ادارہ (ایف آئی اے) کی تحقیقات سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں جب کہ ان کے اردگرد بھی وہ لوگ ہیں جو حکومت پر دباؤ ڈال کر سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

جہانگیر ترین کا شمار عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
جہانگیر ترین کا شمار عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔

کیا عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینا ہو گا؟

تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ صورتِ حال وزیراعظم عمران خان کے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔ اگر اُنہیں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیا گیا تو ایک نیا سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ جہانگیر ترین یہ کہہ چکے ہیں عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

کنور دلشاد احمد سمجھتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت اپنی عددی اکثریت کھو رہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ عمران خان کو قومی اسمبلی میں 178 ارکان کی حمایت حاصل ہے جب کہ وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے لیے 172 ارکان کی حمایت ہونا لازمی ہوتا ہے۔

کنور دِلشاد کے مطابق جہانگیر ترین گروپ کے چھ، سات یا اس سے زیادہ ارکان اپنا الگ گروپ بنا لیتے ہیں تو لامحالہ وزیرِ اعظم کے لیے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔

اُن کے بقول الگ پارلیمانی گروپ کا مطلب تو یہ ہے کہ جہانگیر ترین گروپ نے خود کو وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت سے الگ کر لیا ہے۔

حامد میر کے بقول راجہ ریاض، خرم لغاری سمیت کچھ اراکین ایسے ہیں جو عرصۂ دراز سے پارٹی قیادت کو اپنے بعض تحفظات سے آگاہ کر رہے تھے جب کہ بعض معاملات طے ہونے کے بعد خاموشی بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔

اُن کے بقول ایسا نہیں لگتا کہ یہ گروپ عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کن اقدامات کرے گا۔ تاہم دباؤ اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے وہ سیاسی ماحول گرم رکھیں گے۔

حکومت کا نقصان یا جہانگیر ترین کا فائدہ؟

سینئر صحافی حامد میر کے بقول "یہ تمام لوگ جہانگیر ترین کو استعمال کر رہے ہیں اور جہانگیر ترین اِن کو استعمال کر رہے ہیں۔ حامد میر سمجھتے ہیں کہ رات کو جہانگیر ترین نے علیٰحدہ گروپ بنانے کا اعلان کیا اور اُنہیں شاید آج کہیں سے کوئی اشارہ مل گیا ہو گا کہ جناب ہاتھ ہلکا رکھیں۔ اُن کے خلاف زیادہ کارروائی نہیں ہو گی۔ جس کی بعد جہانگیر ترین نے وضاحت کر دی ہے۔"

حامد میر سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں جہانگیر ترین حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں منقسم ہیں۔ اگر حزبِ اختلاف کی جماعتیں متحد ہوتیں اور اگر وہ کوئی عدمِ اعتماد لے کر آ رہی ہوتیں تو صورتِ حال مختلف ہو سکتی تھی۔

حامد میر کے بقول جب سے جہانگیر ترین گروپ متحرک ہوا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اِن ہاؤس تبدیلی کی باتیں کرنا بند کر دی ہیں۔ کیوں کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی یہ چاہتی ہیں کہ تحریکِ انصاف مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔

جہانگیر ترین کے ساتھی ارکان اسمبلیوں میں کہاں بیٹھیں گے؟

کنور دلشاد نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے قوانین کے تحت جہانگیر ترین کے ارکان موجودہ صورتِ حال میں حکومتی بینچز میں ہی بیٹھیں گے۔ اگر وہ علیٰحدہ بینچز پر بیٹھتے ہیں تو اُن پر 'فلور کراسنگ' کی شق لگنے کا امکان ہو گا یعنی یہ تاثر ملے گا کہ وہ اپنی پارٹی سے الگ ہو کر کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

کنور دلشاد کے بقول بجٹ کی منظوری کے لیے جہانگیر ترین گروپ میں شامل افراد کے ووٹوں کی ضرورت پڑے گی۔ لہذٰا بجٹ کے موقع پر یہ واضح ہو گا کہ یہ گروپ اس موقع پر کیا کرتا ہے۔

حکومت کا مؤقف

وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ جماعتوں کے اندر اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں۔ تاہم اُنہیں یقین ہے کہ جہانگیر ترین گروپ آئندہ بجٹ کی منظوری کے لیے ووٹ دے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جماعتوں میں گروپ بنتے رہتے ہیں جب کہ چھوٹی موٹی تلخیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، سارے معاملات افہام و تفہیم سے حل کر لیے جائیں گے۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

جہانگیر ترین کا ہم خیال گروپ سامنے آنے پر بدھ کو پاکستانی سوشل میڈیا پر وزیرِ اعظم عمران خان کی حمایت میں ٹرینڈز چلتے رہے جن میں تحریک انصاف کے اہم رہنما اور صارفین نے بھی کئی ٹوئٹس کی۔

بعض صارفین جہانگیر ترین کے حق میں بھی ٹوئٹس کرتے رہے۔

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وفاقی وزیر علی زیدی نے ٹوئٹ کی کہ وہ اپنی آخری سانس تک عمران خان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

جہانگیر ترین کے خلاف کیس کیا ہے؟

گزشتہ ماہ پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مبینہ مالیاتی فراڈ اور منی لانڈرنگ کے مقدمات درج کیے تھے۔

رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین نے سرکاری شیئر ہولڈرز کے پیسوں پر غبن کیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین کی کمپنی 'جے ڈی ڈبلیو' نے دھوکے سے تین ارب 14 کروڑ روپے فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ کو منتقل کیے ہیں۔

یف آئی آر کے مطابق فاروقی پلپ ملز جہانگیر ترین کے بیٹے اور قریبی رشتہ داروں کی ملکیت ہے۔

ایف آئی آر درج ہونے کے بعد جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین نے لاہور کی سیشن عدالت سے عبوری ضمانتیں حاصل کر رکھی ہیں۔

عدالت میں جہانگیر ترین اور علی ترین نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایف آئی اے نے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے درج کیے ہیں۔

ان کے بقول انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG