رسائی کے لنکس

کراچی کا ’بنی اسرائیل قبرستان‘ 1980ء سے ’غیر آباد‘ ہے


نئی نسل کے نوے فیصد نوجوانوں کو تو اس مقام کے بارے میں بھی نہیں پتہ جہاں یہ واقع ہے۔ نہ ہی ان کے تصور میں یہ ہے کہ بنی اسرائیل یا عرف عام میں کہیں تو ’یہودی‘ کبھی کراچی میں بھی آباد تھے

کراچی میں ’بنی اسرائیل قبرستان‘ کی موجودگی کا ذکر ہی نوجوان نسل کیلئے انتہائی حیرانی کا باعث ہے۔ نئی نسل کے 90 فیصد نوجوانوں کو تو اس مقام کے بارے میں بھی نہیں پتہ جہاں یہ واقع ہے۔ نہ ہی ان کے تصور میں یہ ہے کہ بنی اسرائیل یا عرف عام میں کہیں تو ’یہودی‘ کبھی کراچی میں بھی آباد تھے اور نشتر روڈ پر جہاں آج ’مدیحہ اسکوائر‘ واقع ہے وہاں سنہ 1988 تک شہر کا سب سے بڑا اور قدیم یہودی عبادت خانہ ’سائنے گاگ‘ قائم تھا۔

یہودی برادری کی اکثریت قیام اسرائیل کے ساتھ ہی کراچی سے ہجرت کرگئی تھی۔ جو تھوڑے بہت باقی تھے ان میں سے کچھ نے 60ء کے عشرے میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ کے بعد وہاں کی راہ لی، جبکہ کچھ نے دنیا سے منہ موڑ کر کراچی کے میوہ شاہ قبرستان کے ایک گمنام گوشے ’بنی اسرائیل قبرستان‘ میں زیر زمین لیٹ کر خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔

زیرنظر تحریر کے سلسلے میں وائس آف امریکہ کے نمائندے نے جب اس قبرستان کی دیکھ بھال کرنے والوں اور جس علاقے میں یہ واقع ہے وہاں کے ’جہاندیدہ‘ بزرگوں سے ملاقات کی تو بہت سے نئے پہلو سامنے آئے۔

60سال سے زائد عمر کے ایک شخص قربان بلوچ نے بتایا کہ وہ بچپن سے اسی علاقے میں مقیم ہے اور اس قبرستان کے کئی گورکنوں سے اس کا ملنا جلنا رہا ہے۔ انہی گورکنوں نے قربان کو بتایا تھا کہ سنہ 1980 کے بعد سے یہاں ایک بھی تدفین نہیں ہوئی۔

اس وقت یہاں جتنی قبروں کے واضح آثار موجود ہیں ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے لیکن تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ یہاں تقریباً 5 ہزار قبریں تھیں۔ اس وقت، تمام قبریں نہایت خستہ حالت میں ہیں۔ ہر جگہ کانٹے دار خودرو جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔ قبروں کی مناسب انداز میں دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ فنڈز کی کمی کے سبب کوئی ہمت بھی نہیں کر پاتا۔

جو قبریں اب تک صحیح سالم ہیں اس کی واحد وجہ بھی شاید یہ ہے کہ یہ نا ’سرائے عام‘ ہے اور نا ’راہ عام‘۔ یہاں تک رسائی کے لئے بہت سی’رکاوٹیں‘ عبور کرنا پڑتی ہیں۔ یہاں جانے کے لئے سخت مراحل طے کرنا اور بہت مضبوظ شناخت رکھنا ضروری ہے جو موجودہ حالات میں جان جوکھوں کا کام بھی ہے۔

انہی قبروں میں سے ایک قبر کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ یہ سولومن ڈیوڈ کی آخری آرام گاہ ہے۔ سولومن ماضی کی کراچی میونسپل کارپوریشن کے عہدیدار تھے۔ انہوں نے ہی نشتر روڈ پر ’مے گین شالوم سینے گاگ‘ تعمیر کرایا تھا۔

چونکہ ’بنی اسرائیل قبرستان‘ مسلمانوں کے قبرستان ’میوہ شاہ‘ کا ہی ایک ویران گوشہ ہے۔ لہذا، اب بھی کسی حد تک اس کی حفاظت ممکن ہے۔ دوسرے بہت ہی کم لوگ اسے کسی طرح دیکھنے کے باوجود یہ جان سکے ہیں کہ یہ پرانی قبریں درحقیقت یہودیوں کی ہیں۔ لیکن، کراچی کے موجودہ حالات جس کے بہت سے منفی اثرات میوہ شاہ اور بنی اسرائیلی قبرستان پر بھی پڑے ہیں ، ان میں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ کب تک اپنی شناخت برقرار رکھ پاتا ہے۔

حالات اس نہج پر ہیں کہ مقامی لوگوں نے بھی یہاں مردے دفنانے چھوڑ دیئے ہیں۔

گولیمار کے ایک بزرگ شہری محمود علی کا کہنا ہے کہ قبرستان دو مختلف سوچ اورایک دوسرے کی مخالف برادریوں کی سرحد بن گیا ہے۔ گینگ وار کے دوران، یہ شرپسندوں کے چھپنے کا ’مرغوب ٹھکانا‘ ہے، جبکہ رہی سہی کسر منشیات فروشوں اور منشیات استعمال کرنے والوں نے پوری کردی ہے۔ عام لوگوں کی بات تو بہت دور کی ہے یہاں تو پولیس اور رینجرز بھی آتے ہوئے گھبراتی ہے۔۔۔‘
XS
SM
MD
LG