رسائی کے لنکس

صحافی صدیق کپن کو دو سال بعد ضمانت مل گئی، عمر خالد کی بھی جیل سے عارضی رہائی


صحافی صدیق کپن، فائل فوٹو
صحافی صدیق کپن، فائل فوٹو

الہ آباد ہائی کورٹ نے کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو جمعے کے روز ضمانت دے دی۔ وہ گزشتہ دو برس سے جیل میں تھے۔ انہیں 6 اکتوبر 2020 کو اس وقت اترپردیش کے متھرا سے گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ایک دلت خاتون کی مبینہ اجتماعی زیادتی اور قتل کے معاملے کی رپورٹنگ کے لیے دہلی سے ہاتھرس جا رہے تھے۔

خیال رہے کہ ہاتھرس کی ایک دلت خاتون کی مبینہ طور پر اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کے خلاف ملک میں شدید احتجاج ہو ا تھا۔

صدیق کپن پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے انتہائی سخت قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی تھی۔ اس دفعہ میں جلد ضمانت نہیں ملتی۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے9 ستمبر کو صدیق کپن کی ضمانت منظور کر لی تھی۔ لیکن چونکہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے 2021 میں ان کے خلاف ایک الگ معاملے میں منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا اور اس مقدمے میں ان کی ضمانت منظور نہیں ہوئی تھی لہٰذا جیل سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جج دنیش کمار سنگھ کی جانب سے اس مقدمے میں ضمانت منظو رکیے جانے کے بعد اب ان کی رہائی کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

رواں ماہ کے شروع میں لکھنو کی ایک عدالت میں ان پر اور چھ دیگر افراد کے پر انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت فرد جرم داخل کی گئی تھی۔ اب تک فرد جرم داخل نہ ہونے کی وجہ سے ٹرائل شروع نہیں ہو پا رہا تھا۔

اس معاملے میں ان کے علاوہ کے اے روف شریف، عتیق الرحمن، مسعود احمد، محمد عالم، عبد الرزاق اور اشرف قادر کو بھی ملزم بنایا گیا ہے۔

صحافی صدیق کپن کی حمایت میں صحافیوں کی تنظیم کے یو ڈبلیو جے کا مظاہرہ۔ فائل فوٹو
صحافی صدیق کپن کی حمایت میں صحافیوں کی تنظیم کے یو ڈبلیو جے کا مظاہرہ۔ فائل فوٹو

پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزمان ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ (پی ایف آئی) اور اس کی طلبہ شاخ ’کیمپس فرنٹ آف انڈیا‘ (سی ایف آئی) کے رکن ہیں۔ صدیق کپن پر اصل الزام یہ تھا کہ وہ پی ایف آئی کی ہدایت پر فرقہ وارانہ ماحول خراب کرانے کے مقصد سے ہاتھرس جا رہے تھے۔

حکومت نے رواں سال کے ستمبر میں پی ایف آئی پر پانچ برس کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کے متعدد عہدے داروں اور ارکان کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔

صدیق کپن اور ان کے وکلا دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے یا اس کی فنڈنگ کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ صدیق کپن اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے مقصد سے ہاتھرس جا رہے تھے۔

اس سے قبل جب سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی تھی تو حزب اختلاف کی جماعتوں اور صحافی تنظیموں نے اس کا خیرمقدم کیا تھا۔ ان کا الزام تھا کہ کپن کو محض ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے اترپردیش کی یوگی حکومت نے نشانہ بنایا ہے۔

حکومت کی جانب سے ایسے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

کیرالہ کے صحافیوں کی ایک تنظیم ’کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس‘ نے ایک بیان میں ضمانت منظو رکیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس وقت تک قانونی لڑائی لڑے گی جب تک کہ کپن کو تمام الزامات سے بری نہیں کر دیا جاتا۔ کپن مذکورہ تنظیم کے رکن ہیں۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ جس طرح بقول اس کے پریس کی آزادی اور آزاد صحافیوں پر حملے ہو رہے ہیں، اس کے پیش نظر ضمانت کی منظوری ایک تاریخی واقعہ ہے۔

دہلی کی صحافیوں کی ایک تنظیم ’دہلی یونین آف جرنلسٹس‘ نے بھی اس حکم کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صدیق کپن کے خلاف فرضی الزامات عائد کیے گئے ہیں اور یونین ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار ایم ودود ساجد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کپن کو ضمانت ملنے کا خیرمقدم کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ اب جب کہ اس معاملے میں ٹرائل شروع ہو گیا ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ جلد ہی فیصلہ بھی آئے گا اور کپن تمام الزامات سے بری کر دیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ صحافی برادری نے ان کی اور دیگر صحافیوں کی غلط الزامات کے تحت گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ کپن جلد ہی جیل سے رہا ہوں گے اور ان کے علاوہ مزید چھ صحافی جو جیل میں ہیں ان کی بھی ضمانت منظور ہوگی۔ واضح رہے کہ اس وقت کپن سمیت 7 صحافی جیل میں ہیں۔

ادھر دہلی کی ایک عدالت کی جانب سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم اور انسانی حقوق کی ایک تنظیم ’یونائٹڈ اگینسٹ ہیٹ‘ سے وابستہ عمر خالد کو ایک ہفتے کے لیے عارضی ضمانت دیے جانے کے بعد وہ جمعے کو تہاڑ جیل سے باہر آگئے۔

انھیں بہن شادی میں شرکت کے لیے ایک ہفتے کی عبوری ضمانت دی گئی ہے۔ انھیں آج تہاڑ جیل سے رہا کر دیا گیا۔ عمر خالد نے دو ہفتے کے لیے ضمانت طلب کی تھی۔

تاہم کڑکڑڈوما عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے ان پر میڈیا سے بات کرنے یا سوشل میڈیا پر فعال ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

انہیں فروری 2020 میں دہلی میں ہونے والے تشدد کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تشدد میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے ان پر فساد کی سازش کرنے کا الزام لگایا تھا۔

یاد رہے کہ 6دسمبر کو عدالت نے انہیں دہلی فساد کے ایک مقدمے میں الزامات سے بری کر دیا تھا۔ تاہم ایک دوسرے مقدمے میں ضمانت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں جیل میں رہنا پڑ رہا ہے۔

ان کو الزامات سے بری کیے جانے اور ضمانت ملنے پر ان کے والد ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ عمر خالد پر جو دو مقدمات قائم کیے گئے ہیں ان میں ایک جیسے الزامات ہیں۔ ایک میں تو الزامات سے بری کر دیا گیا ہے، توقع ہے کہ دوسرے مقدمے میں بھی انہیں بری کر دیا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG