رسائی کے لنکس

کابل گورودوارہ حملہ: کیا بھارت میں داعش کا اثر بڑھ رہا ہے؟


افغان سیکیورٹی اہل کار کابل میں دہشت گرد حملے کے بعد سکھ گورودوارہ میں نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 25 مارچ 2020
افغان سیکیورٹی اہل کار کابل میں دہشت گرد حملے کے بعد سکھ گورودوارہ میں نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 25 مارچ 2020

کابل کے گورودوارہ ہر رائے صاحب پر حملے کے بعد جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے، بعض حلقوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بھارت میں داعش کے اثرات بڑھ رہے ہیں؟

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حملے کے بعد داعش کی جانب سے حملہ آوروں میں سے ایک خودکش بمبار کی تصویر جاری کی گئی تھی جس کا نام ابو خالد الہندی بتایا گیا اور جس کا تعلق بھارت کی ریاست کیرالہ سے ہے۔ وہ اپنے ہاتھ میں ایک رائفل لیے ہوئے ہے اور انگشت شہادت کو اوپر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ تصویر داعش کے پراپیگنڈہ میگزین ”ال نبائ“ میں 26 مارچ کو شائع ہوئی تھی۔

اس سلسلے میں بھارت کے اخبار انڈیا ٹوڈے نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس نے کیرالہ کے پولیس انٹلی جینس ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا ہے کہ ابو خالد الہندی کا اصل نام محسن ہے اور وہ 21 سالہ نوجوان گزشتہ سال 18 جون کو افغانستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ کیرالہ کے کاسرگاڈ ضلع سے اس کا تعلق تھا اور وہ انجینئرنگ کا اسٹوڈنٹ تھا۔

اگر محسن یا ابو بکر الہندی مذکورہ حملے میں شامل تھا تو اس کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ وہ داعش میں دوسرا بھارتی خود کش حملہ آور ثابت ہوا ہے۔

اگست 2015 میں داعش کا ایک اور بھارتی دہشت گرد ابو یوسف الہندی عرف شفیع ارمار رقہ شام میں ایک خود کش حملے میں مارا گیا تھا۔ اس کا تعلق کرناٹک کے بھٹکل سے تھا اور وہ انڈین مجاہدین کا کارکن تھا۔ وہ پہلا بھارتی تھا جسے امریکہ نے عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق محسن دبئی سے افغانستان گیا تھا۔

مئی جون 2016 میں کیرالہ سے 98 افراد نے افغانستان جا کر داعش کے مبینہ ”خراسان صوبے“ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان میں سے 30 براہ راست کیرالہ سے گئے تھے۔ باقی نے خلیج سے جا کر اس میں شمولیت اختیار کی تھی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارتی بالخصوص کیرالہ کے مسلم نوجوان داعش کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور کیا بھارت میں ہندوتو وا سیاست کے مقابلے میں مسلم انتہاپسندی پیدا ہو رہی ہے؟

سینئر تجزیہ کار اور عالمی دہشت گردی پر گہری نظر رکھنے والے قمر آغا کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”اگرچہ کیرالہ کے کافی نوجوان داعش کی جانب راغب ہوئے ہیں اور کئی ہلاک بھی ہوئے ہیں لیکن یہ عام رجحان نہیں ہے“۔

ان کے مطابق ”کیرالہ اور مہاراشٹر سے وہ لوگ جو خلیج میں گئے تھے، ان کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے۔ اس لیے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ لوگ داعش میں شامل ہوئے ہوں لیکن اب لوگوں کا رجحان نہ صرف بھارت میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلامی دہشت گردی سے ہٹ رہا ہے“۔

قمر آغا کہتے ہیں کہ افغانستان میں گورودوارے پر ہونے والے حملے کے سلسلے میں داعش نے جس نوجوان کی تصویر جاری کی ہے وہ درست ہو سکتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ”بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے، کچھ لوگ دہشت گردی کی جانب مائل ہوں گے لیکن ایک تو یہ عام رجحان نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ حال ہی میں دہلی میں جو فساد ہوا اس میں لوگ حکومت اور پولیس کے خلاف غصے میں ہیں"۔

ان کے مطابق سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے تعلق سے بھی عوام کے بہت بڑے طبقے میں، جس میں غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں ہیں، ناراضی پائی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں جو مظاہرے ہوئے ہیں، ان میں غیر مسلموں کی بھی بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ یہاں تک کہ شاہین باغ کے دھرنے میں بھی وہ پیش پیش رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بھارت کے مسلم نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

ایک سینئر صحافی اے یو آصف بھی اس نظریے کو رد کرتے ہیں کہ بھارت کے مسلم نوجوان داعش کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں 2016 وغیرہ میں کیرالہ، کرناٹک اور مہاراشٹر کے کچھ نوجوان شام گئے تھے۔ پھر وہ افغانستان گئے۔ لیکن یہ اکا دکا واقعات ہیں۔ ان کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں کا مسلم نوجوان اسلامی دہشت گردی کی جانب جھک رہا ہے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے قبل جب راج ناتھ سنگھ وزیر داخلہ تھے تو انھوں نے متعدد بار یہ بیان دیا تھا کہ داعش بھارتی مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے اور یہاں کے مسلم نوجوانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خیال رہے کہ دو تین سال قبل جب کچھ مسلم نوجوانوں میں انتہاپسندانہ رجحانات پیدا ہو رہے تھے تو خود ان کے والدین پولیس سے رابطہ قائم کر کے انھیں اس کی اطلاع دے دیتے تھے جس کے بعد پولیس ان نوجوانوں کو بلا کر ان کی کونسلنگ کرواتی تھی۔ ذرائع کے مطابق ایسے متعدد نوجوانوں کے خیالات بدلے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں بھارت میں اسلامک اسٹیٹ تا حال اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ ابو خالد الہندی کی تصویر کے اجرا یا کابل گورودوارہ حملے میں اس کی شمولیت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ بھارتی مسلم نوجوان داعش کی جانب جھک رہے ہیں درست نہیں ہو گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG