رسائی کے لنکس

طالبان قیدیوں کی رہائی مکمل، افغان مذاکراتی ٹیم دوحہ روانگی کے لیے تیار


صدارتی فرمان جاری ہونے کے بعد سے اب تک چند کے سوا تمام افغان قیدی رہا ہو چکے ہیں۔ فائل فوٹو
صدارتی فرمان جاری ہونے کے بعد سے اب تک چند کے سوا تمام افغان قیدی رہا ہو چکے ہیں۔ فائل فوٹو

افغانستان میں حکام نے طالبان کے 5000 قیدیوں کی رہائی مکمل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف چند ایسے قیدی باقی رہ گئے ہیں جنہیں رہا کرنے پر بعض ممالک کو اعتراض ہے۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے امید ظاہر کی ہے کہ قیدیوں کی رہائی مکمل ہونے کے بعد براہ راست مذاکرات جلد شروع ہو جائیں گے۔

جاوید فیصل نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ حال ہی میں طالبان کے 400 قیدیوں کی رہائی کے بعد طالبان نے اپنی حراست میں موجود افغان حکومت کے کمانڈوز بھی رہا کر دیے ہیں۔

ان کے بقول ان چند طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا جن کی رہائی پر کابل کے اتحادی ممالک نے اعتراض کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ براہ راست مذاکرات جلد شروع ہو جائیں گے۔

سیکیورٹی حکام کے مطابق طالبان قیدیوں کے آخری گروپ کو بدھ کو پل چرخی جیل سے رہا کیا گیا۔

ذرائع سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق جن 6 سے 7 طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا، انہیں دوحہ منتقل کر دیا جائے گا اور ان کے مستقبل کا فیصلہ طالبان اور مغربی ممالک کے درمیان کسی نیتجے پر پہنچنے پر ہو گا۔

دوسری جانب طالبان سے مذاکرات کے لیے افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم دوحہ جانے کی منتظر ہے۔ افغانستان کی ٹیکنیکل ٹیم کے پانچ ارکان قطر میں موجود ہیں جو دوحہ میں مذاکراتی ٹیم کے قیا کے انتظامات میں مصروف ہیں۔

افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امن مذاکرات کی ٹیم کسی بھی وقت کابل سے روانہ ہونے کے لیے تیار ہے۔

اعلیٰ کونسل کے حکام نے ٹیم کی روانگی کے لیے کسی تاریخ یا وقت کا اعلان نہیں کیا۔

افغان وفد کے سربراہ محمد معصوم ستنکزئی کہہ چکے ہیں کہ براہ راست مذاکرات کا آغاز جلد ہو جائے گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع کرنے میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔ اس لیے مذاکرات کا آغاز کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔

'افغان امن مذاکرات پر سب خوش ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:35 0:00

دوسری جانب تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر بین الاقوامی برادری نے افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات پر نظر نہ رکھی تو وہ طویل عرصے تک جاری رہ سکتے ہیں اور نتیجہ خیز بھی ثابت نہیں ہو سکتے۔

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس فروری میں امن معاہدہ طے پایا تھا کہ جس کے تحت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی، پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کا کہا گیا تھا جس کے بدلے میں طالبان نے اپنی حراست میں موجود افغان فوج کے ایک ہزار قیدی رہا کرنے تھے۔ لیکن افغان حکومت نے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی روک لی تھی۔

افغان حکومت کا مؤقف تھا کہ مذکورہ 400 قیدی امریکہ سمیت دنیا بھر کے لیے خطرہ ہیں۔ تاہم صدر اشرف غنی نے لویہ جرگے کی مشاورت کے بعد ان کی رہائی کا فرمان جاری کر دیا تھا۔

صدارتی فرمان کے بعد گزشتہ ماہ 400 میں سے 80 قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ مزید 200 قیدی گزشتہ روز رہا ہوئے تھے جب کہ چند کے علاوہ باقی قیدیوں کو بدھ کو رہا کر دیا گیا۔

XS
SM
MD
LG