رسائی کے لنکس

کرناٹک میں معلق اسمبلی، سب کی نگاہیں گورنر پر مرکوز


فائل
فائل

کرناٹک میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے بعد وہاں معلق اسمبلی وجود میں آئی ہے۔ بی جے پی کل 222 میں سے 104 نشستوں کے ساتھ واحد سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھری ہے۔ جبکہ کانگریس 76 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور جنتا دل ایس 39 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

صبح کے وقت جو رجحانات آرہے تھے ان میں بی جے پی کو واضح اکثریت ملتی نظر آرہی تھی مگر دوپہر کے بعد حالات بدل گئے اور وہ سادہ اکثریت سے آٹھ نشستیں پیچھے رہ گئی۔

اس صورت حال کے بعد نئی دہلی اور خاص طور پر بنگلور میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئیں۔ کانگریس نے بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے جنتا دل ایس کی حمایت کر دی اور اس کے لیڈر اور سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کے بیٹے کمارا سوامی کو وزیر اعلی کے عہدے کی پیشکش کر دی۔

اس کے بعد بی جے پی کی جانب سے وزیر اعلی کے عہدے کے امیدوار ایڈی یورپّا اور کمارا سوامی دونوں نے گورنر وجو بھائی بالا سے ملاقات کی اور حکومت سازی کے لیے مدعو کرنے کی درخواست کی۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ واحد بڑی پارٹی ہے اس لیے حکومت سازی کا موقع اسے ملنا چاہیے۔ ایڈی یورپا کا دعویٰ ہے کہ وہ ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کر دیں گے۔

جبکہ کمارا سوامی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اکثریت ہے اس لیے حکومت سازی کا موقع انھیں ملنا چاہیے۔

ایک سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے حکمراں کانگریس اور اپوزیشن بی جے پی دونوں کو سبق سکھایا ہے۔ انھوں نے بتا دیا کہ وہ ان سے ناراض ہیں۔

پشپ رنجن نے بی جے پی کے اس دعوے پر کہ وہ بڑی پارٹی ہے اسے حکومت سازی کا موقع ملنا چاہیے کہا کہ گوا اور منی پور میں یہ فامولہ کیوں نہیں اپنایا گیا تھا۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی بڑی پارٹی نہیں تھی، بڑی پارٹی کانگریس تھی، لیکن اس نے کیسے حکومت بنا لی۔

انھوں نے کہا کہ بی جے پی کے لوگ کہتے ہیں کہ اگر حکومت سازی کا موقع نہیں ملا تو وہ سپریم کورٹ میں جائیں گے۔ لیکن انھیں اپنا سابقہ عمل دیکھنا چاہیے۔

ہفت روزہ ’چوتھی دنیا‘ کے مدیر اور سینئر تجزیہ کار سنتوش بھارتیہ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوام نے حکمراں جماعت اور عوام دونوں کو پیغام دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نریندر مودی کے پرچار نے بی جے پی کو بہت فائدہ پہنچایا۔ لیکن، کانگریس کو بحیثیت جماعت جیسی محنت کرنی چاہیے تھی اس نے نہیں کی۔

سینئر تجزیہ کار ونود شرما کہتے ہیں کہ کانگریس کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی، جبکہ یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ ہر الیکشن میں الگ الگ ایشوز کام کرتے ہیں۔ اس الیکشن میں بھی کوئی ایک فیکٹر ایسا نہیں تھا جس نے کام کیا ہو۔

آلوک کمار وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مودی کا اثر اب کم ہو رہا ہے۔ کانگریس نے جس طرح جنتا دل ایس کو فوری حمایت دے دی اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی سابقہ غلطیاں دوہرانا نہیں چاہتی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس الیکشن کا اثر 2019 کے الیکشن پر پڑے گا۔

بی جے پی کہتی ہے کہ رائے دہندگان نے کانگریس کی عوام کو تقسیم کرنے کی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا ہے، جبکہ کانگریس کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے الیکشن جیتنے کے لیے ہر حربہ اختیار کریا۔

اب سب کی نگاہیں گورنر پر مرکوز ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG