رسائی کے لنکس

دہلی: ہندو پجاری کے قتل کا منصوبہ بنانے کے الزام میں کشمیری نوجوان گرفتار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک بڑھئی (کارپینٹر) کو دہلی پولیس نے سرکردہ ہندو پجاری سوامی یتی نرسنگھانند سرسوتی کے قتل کی مبینہ سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔

دہلی پولیس کے اعلیٰ افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پُلوامہ سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ نوجوان جان محمد ڈار کو متنازع ہندو پجاری کو قتل کرنے کا کام کالعدم عسکری تنظیم ’جیشِ محمد‘ نے سونپا تھا اور اس کے لیے مبینہ طور پر ملزم کو ساڑھے 41 ہزار روپے کی رقم بھی ادا کی گئی تھی۔

پولیس کے مطابق، اس رقم میں سے 35 ہزار روپے ملزم کے جموں و کشمیر بینک کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے گئے اور ساڑھے چھ ہزار نقد ادا کیے گئے۔

’زعفرانی کپڑے، مالا، تلک اور بندوق‘

پولیس کے مطابق، جان محمد ڈار کو دہلی کے علاقے ’پہاڑ گنج‘ کے ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا۔

اس کے کمرے اور سامان کی تلاشی کے دوران کیسری (زعفرانی) رنگ کا لباس، ہندو مذہب میں عام طور پر استعمال کی جانے والی مخصوص مالا، چندن ٹیکا جسے ہندو پیشانی پر لگاتے ہیں، کلائی میں باندھنے والا متبرک تصور ہونے والا دھاگا 'کلاوا' اور پوائنٹ 30 ساخت کی ایک پستول برآمد کی گئی۔

پولیس کے مطابق، اس سامان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مبینہ طور پر جان محمد ڈار خود ایک ہندو پجاری یا سادھو بن کر سوامی یتی نرسنگھا نند سرسوتی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔

دہلی پولیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزم اپریل کے آخری ہفتے میں کشمیر سے دہلی پہنچا تھا جہاں عمر نام کے ایک شخص نے اسے ہوٹل پہنچایا اور اسے پستول، دو میگزین اور گولیوں کے 15 راؤنڈز فراہم کیے۔ حکام کے مطابق، پولیس اب عمر کو تلاش کر رہی ہے۔

دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے ترجمان نے فون پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کیس کی ابتدائی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ جان محمد ڈار عرف جہانگیر کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے جولائی 2014 میں معروف کشمیری عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے ردِ عمل میں ہونے والے مظاہروں کے دوران حفاظتی دستوں پر پتھراؤ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ لیکن، بعد میں رہا کر دیا تھا۔ بعد ازاں ڈار نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور بڑھئی کا کام کرنے لگا۔

کشمیر: جھڑپوں میں شہریوں کی املاک کے نقصان کا ذمہ دار کون؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

ترجمان کے مطابق، وہ اس سال فروری میں اپنے بھانجے کے علاج کے لیے بہن اور اُس کے سُسر کے ہمراہ دہلی پہنچا تھا۔ جب وہ واپس کشمیر لوٹا تو وہاں ضلع اننت ناگ کے کسی مقام پر اُس کی عابد نام کے ’جیشِ محمد‘ کے ایک کمانڈر سے دوسری مرتبہ ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات میں عابد نے اُسے وہ ویڈیو دکھائی جس میں سوامی نرسنگھا نند سرسوتی کو دہلی پریس کلب میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران پیغمبرِ اسلام کے بارے میں مبینہ طور پر نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

ملاقات میں، بقول ان کے، ڈار کو سوامی نرسنگھا نند کو قتل کرنے کا کام سونپا گیا جس کے عوض اُسے ایک خطیر رقم دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق، عابد نے جان محمد ڈار کو بتایا تھا کہ وہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھتا ہے اور دونوں اس ملاقات کے بعد ’واٹس ایپ‘ پر مسلسل رابطے میں رہے۔

خفیہ اطلاعات پر چھاپا

پولیس نے مزید بتایا کہ عابد کے کہنے پر ملزم ڈار 23 اپریل کو کشمیر سے دہلی کے لیے روانہ ہوا جہاں جامع مسجد کے ایک علاقے میں اُس کا استقبال عمر نے کیا اور تین دن تک اپنے ٹھکانے پر ٹھہرانے کے بعد وہ اُسے پہاڑ گنج کے ’شیوا ہوٹل‘ میں لے گیا جہاں اُس کے لیے پہلے ہی ایک کمرہ کرائے پر لیا گیا تھا۔

پولیس کے دعوے کے مطابق، دونوں سماجی رابطے کی ایپلی کیشن ’ٹیلی گرام‘ پر رابطے میں تھے۔

پولیس نے 28 اپریل کو خفیہ ایجنسی کی طرف سے فراہم کردہ اطلاع کی بنیاد پر درج کی گئی ایک ایف آئی آر کے تحت ہوٹل پر چھاپا مارا اور ڈار کو گرفتار کرلیا۔

ملزم کے اہلِ خانہ کا مؤقف

جان محمد ڈار کے گھر والوں نے دہلی پولیس کے الزام اور دعوؤں کی سختی کے ساتھ تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا جا رہا ہے۔

دہلی پولیس نے ماضی میں بھی کئی کشمیریوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

'خوش ہیں کہ اب گولیاں نہیں برسیں گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:47 0:00

اس طرح کی گرفتاریاں بھارت کی بعض دوسری ریاستوں میں بھی عمل میں لائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن بعد میں ایسے بہت سے معاملات قانون کی کسوٹی پر کھرے نہیں اُتر پائے۔

ان کیسز میں ایسے ملزمان بھی سامنے آئے ہیں جو 10 یا 20 سال تک جیلوں میں گزار چکے تھے۔ تاہم، ثبوت کی عدم فراہمی کےبعد عدالتوں نے انہیں بری کر دیا۔

’ثبوت کے بغیر گرفتاری‘

انسانی حقوق کے کارکن اور ہیومن رائٹس واچ میں ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں اور پھر ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن ملزموں کے خلاف ثبوت نہیں مل پاتے وہ اکثر ایسے معاملات میں پہلے ہی کئی کئی برس جیلوں میں گزار چکے ہوتے ہیں جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

میناکشی گنگولی کے مطابق، بھارت میں کئی برس سے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایک کے بعد ایک قانون متعارف کرائے گئے جو سخت ظالمانہ بھی ثابت ہوئے۔ پہلے ’ٹاڈا‘ لایا گیا لیکن اُسے اس لیے ہٹایا گیا کہ وہ بہت ہی زیادہ سخت تھا۔ اُس کے بعد ’پوٹا‘ لایا گیا، لیکن اُس کو بھی اسی وجہ سے منسوخ کیا گیا۔ پھر غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون میں کچھ اس طرح سے ترامیم کی گئیں کہ اکثر معاملات میں عدالتیں ملزموں کو ضمانت پر رہا کرنے سے بھی انکار کرتی ہیں۔

’کوئی بلاوجہ اذیت نہ جھیلے‘

انہوں نے مزید کہا کہ کئی کیسز میں استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات کو ثابت ہی نہیں کر پاتی ہے اور جب ثبوتوں کی عدم فراہمی کی بنا پر ملزم کو رہا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے وہ پہلے ہی بے گناہی میں کئی برس جیل میں گزار چکا ہوتا ہے جس سے نہ صرف اُس کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے، بلکہ اُس کے اہلِ خانہ بھی تکالیف اٹھاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا، ریاست کو چاہیے کہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوشش میں کوئی بلاوجہ اذیت نہ جھیلے۔

سوامی نرسنگھا نند کون ہیں؟

سوامی نرسنگھانند سرسوتی بھارت کی ریاست اتر پردیش کے غازی آباد علاقے میں واقع دسنا دیوی مندر کے اعلیٰ پجاری ہیں۔

یہ اپنے انتہا پسندانہ خیالات اور متنازع و فرقہ وارانہ بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہے ہیں۔

انہوں نے حال ہی میں ایک علاقائی پریس کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران پیغمبرِ اسلام کی شان میں مبینہ نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے جس کے بعد ان کے خلاف بھارت کے مختلف علاقوں میں درجنوں مقدمات درج کیے گئے اور مسلمانوں نے اُن کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔

ناقدین کے نزدیک سوامی نرسنگھا نند کے گرفتار نہ ہونے کی وجہ ان کے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والی بعض با اثر شخصیات سے مبینہ قریبی تعلقات ہیں۔

مبصرین کے مطابق، انتہا پسندانہ خیالات کے حامل اُتر پردیش کے وزیرِاعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ کے ساتھ بھی ان کے مبینہ قریبی تعلقات ہیں لیکن بی جے پی اس کی تردید کر چکی ہے۔

اس سے پہلے پرشوتم رام ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سوامی نرسنگھا نند نے ہندوؤں پر چار سے پانچ بچے پیدا کرنے اور اپنے آپ کو مسلح کرنے پر زور دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ "جس کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں ہے میں اُسے ہندو نہیں مانتا ہوں، کیوں کہ ہمارے دیوی دیوتاؤں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے۔ تمام ہندؤں کو اب تیاری کرنی پڑے گی۔ ہر ہندو کے گھر میں چار سے پانچ بچے ہونے چاہئیں۔ آج کے نوجوانوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ جس کے گھر میں چھ یا پانچ سے کم بچے ہوں گے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی نسل کو تباہ ہوتے دیکھ کر مرے گا۔ اتنے برے دن آنے والے ہیں۔"

رواں سال مارچ میں سوامی کے ایک بھگت نے دسنا دیوی مندر کے احاطے میں پانی پینے کی غرض سے داخل ہونے والے ایک 14 سالہ مسلمان لڑکے کی پٹائی کی تھی جس کی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔

اس واقعے کے بعد سوامی کو سوشل میڈیا اور بھارت کے ذرائع ابلاغ کے ایک حصے اور آزاد خیال طبقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

تاہم، مندر کے منتظمین نے لڑکے پر وہاں موجود دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کی بے حرمتی اور ہندو لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا تھا۔

اطلاعات کے مطابق، مذکورہ مندر کے صدر دروازے پر درج ہے کہ "یہ مندر ہندوؤں کا مقدس مقام ہے۔ یہاں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے۔"

کرونا وائرس کے پیشِ نظر قیدی رہا کرنے کا فیصلہ

ادھر منگل کو بھارت کے زیرِ انتطام کشمیر کی ہائی کورٹ نے علاقے کی مختلف جیلوں میں بند قیدیوں کو پیرول پر 90 دن کے لیے رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔

عدالتِ عالیہ کے جج جسٹس علی محمد ماگرے نے کہا کہ یہ فیصلہ کرونا وائرس کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر بھارت کی سپریم کورٹ کی طرف سے گزشتہ برس مارچ میں دی گئی ہدایات کے تحت کیا گیا ہے۔

بھارتی کشمیر میں کرونا وائرس کی کیا صورتِ حال ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:49 0:00

گزشتہ دنوں یہ خبریں آئی تھیں کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی بعض جیلوں میں، جن میں ادھم پور کی مرکزی جیل بھی شامل ہے، کئی قیدی کرونا وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

اسی جیل میں قید سرکردہ آزادی پسند رہنما اور ’تحریکِ حریت‘ کے سربراہ محمد اشرف خان صحرائی کی گزشتہ ماہ ایک اسپتال منتقلی کے صرف ایک دن بعد ہی موت ہوئی تھی۔ وہ بھی کرونا وائرس کا شکار ہوئے تھے۔

پولیس نےگزشتہ دنوں ان کے دونوں بیٹوں راشد اشرف اور مجاہد اشرف اور ان کے چند قریبی رشتے داروں کو ان کی تدفین کے دوران بھارت مخالف اور کشمیر کی آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے لگانے پر غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کے تحت گرفتار کیا تھا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس وقت چار ہزار سے زائد افراد قید ہیں، جب کہ مزید کئی سو قیدیوں کو بھارت کی مختلف ریاستوں کے جیلوں میں رکھا گیا ہے۔

ان قیدیوں کی اکثریت کا تعلق کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں سے ہے یا انہیں عسکریت پسند ہونے یا ان کا ہمدرد اور گراونڈ ورکرز ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایسے قیدیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG