رسائی کے لنکس

جگہ کی کمی یا خوراک کی عدم دستیابی؟ لاہور سفاری کے 14 شیر فروخت


لاہور زو سفاری کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق شیروں کو محکمہ خزانہ کی طرف سے مقرر کردہ نرخ ڈیڑھ لاکھ روپے فی شیر کے حساب سے فروخت کیا گیا ہے۔
لاہور زو سفاری کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق شیروں کو محکمہ خزانہ کی طرف سے مقرر کردہ نرخ ڈیڑھ لاکھ روپے فی شیر کے حساب سے فروخت کیا گیا ہے۔

لاہور زو سفاری نے مبینہ طور پر بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث شیر اور شیرنیوں کو فروخت کیا ہے۔

لاہور زو سفاری انتظامیہ کے مطابق انہوں نے 14 شیروں اور شیرنیوں کو مرحلہ وار فروخت کیا ہے۔

لاہور زو سفاری زو کے ڈپٹی ڈائریکٹر سلیم الطاف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فروخت کیے گئے 14 شیروں اور شیرنیوں میں سے 12 ایسے تھے جو معمولی معذوری کا شکار تھے جب کہ دو شیر مکمل صحت مند تھے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور زو سفاری میں شیروں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے شیر فروخت کیے ہیں۔

ان کے بقول شیروں کو محکمہ خزانہ کی طرف سے مقرر کردہ نرخ ڈیڑھ لاکھ روپے فی شیر کے حساب سے فروخت کیا گیا ہے۔

سفاری پارک کی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے باعث لاہور زو سفاری بند ہے۔ لوگ یہاں سیر و تفریح کے لیے نہیں آ رہے۔ جس کے باعث انتظامیہ کو اِن شیروں کے اخراجات اٹھانے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ لہذا انہیں فروخت کر دیا گیا ہے۔

افسر کا مزید کہنا تھا کہ جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے یہاں کوئی نہیں آتا۔ صرف ہم ملازمین ہی آتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے باعث لاہور زو سفاری بند ہے اور آمدن نہیں ہو رہی۔ شیروں کی روزانہ کی خوراک پوری کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا انتظامیہ نے ہیڈ کوارٹر کی اجازت سے انہیں فروخت کر دیا ہے۔

لاہور زو سفاری زو کے ڈپٹی ڈائریکٹر سلیم الطاف نے تردید کی کہ شیروں کو لاک ڈاؤن یا خوراک کی کمی کے باعث فروخت کیا گیا ہے۔

لاہور کے چڑیا گھر میں تعینات ویٹرنری ڈاکٹر محمد اظہر کے مطابق لاہور زو سفاری میں جگہ کی کمی کے باعث شیر فروخت کیے گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ویٹرنری ڈاکٹر محمد اظہر نے بتایا کہ جگہ کم ہونے کے ساتھ ساتھ لاہور زو سفاری میں شیروں کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی۔ جس کے باعث اِنہیں رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

ڈاکٹر اظہر کے مطابق جب شیروں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو اِن کے لیے مختص بجٹ بھی کم پڑنے لگا تھا۔ جس کے باعث محکمے نے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ شیروں کو فروخت کر دیا جائے۔

ان کے مطابق ہم نے مجموعی طور پر 14 شیر فروخت کیے ہیں۔ جن میں سے کچھ بیمار اور بڑی عمر کے تھے جب کہ کچھ جوان، تندرست اور صحت مند تھے۔

انہوں نے کہا کہ اِس وقت لاہور زو سفاری میں 25 شیر اور شیرنیاں موجود ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اِن شیروں کی افزائش آسانی سے کی جا سکتی ہے لیکن اگر ضرورت پڑی تو مزید شیروں کو بھی فروخت کیا جا سکتا ہے۔

ویٹرنری ڈاکٹر محمد اظہر کا کہنا تھا کہ لاہور زو سفاری میں اِس وقت شیروں کے ساتھ پانچ چیتے بھی موجود ہیں۔ جن میں دو پوما نسل اور تین جیگوار نسل کے ہیں۔

سفاری پارک کی انتظامیہ کے مطابق کسی بھی شیر یا شیرنی کو ہفتے کے پانچ دن میں آٹھ کلو گائے کا گوشت اور آدھا لیٹر دودھ دیا جاتا ہے۔ ہفتے کے چھٹے دن چھ کلو مرغی کا گوشت دیا جاتا ہے جب کہ ساتویں دن اُنہیں کوئی خوراک نہیں دی جاتی۔

شیروں کی فروخت کے حوالے سے محکمہ وائلڈ لائف نے کہا ہے کہ تمام شیروں کو قانون کے مطابق فروخت کیا گیا ہے۔ جس کی بولی سب کے سامنے ہوئی تھی۔

محکمے کے مطابق تمام شیروں کو صرف اُن لوگوں کو فروخت کیا گیا ہے جن کے پاس شیر پالنے کا لائسنس (اجازت نامہ) موجود تھا۔ ایسے افراد اپنے گھر یا فارم ہاؤس میں شیر پالتے ہیں۔

شیروں کی فروخت پر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عظمٰی خان کہتی ہیں کہ انہیں تعجب ہے کہ لاک ڈاون کا اثر اتنی جلدی کیسے آ گیا کیونکہ جس طرح ہر سرکاری محکمے کا سالانہ بجٹ ہوتا ہے۔ اِسی طرح لاہور سفاری پارک کا بھی سالانہ بجٹ ہوتا ہے۔ ابھی سالانہ مالیاتی سال کا اختتام نہیں ہوا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عظمٰی خان نے کہا کہ وہ چڑیا گھر یا سفاری پارک کے جانوروں کی فروخت کے خلاف ہیں۔

شیر اور شیرنی کو تکلیف دہ بیماری سے نجات دلانے کیلئے ہلاک کر دیا جائے گا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:20 0:00

انہوں نے کہا کہ جب جانوروں کو فروخت کیا جاتا ہے تو معلوم نہیں ہوتا کہ اُنہیں کن حالات میں رکھا جائے گا۔

ڈاکٹر عظمٰی نے مزید کہا کہ جب اِس طرح سے جانوروں کو فروخت کیا جاتا ہے کوئی نہیں جانتا کہ مرنے کے بعد اُن کی کھال اور جسم کے دوسرے حصوں کا کیا کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جانوروں کی کھالوں اور جسم کے حصوں کی غیر قانونی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر عظمیٰ خان کا کہنا تھا کہ اگر جانوروں کی نسل میں اضافے کی بات ہے تو زو سفاری کی انتظامیہ کو یا محکمہ وائلڈ لائف کو شیروں اور شیرنیوں کو مانع حمل ادویات دینی چاہیے تھیں۔ دنیا بھر میں جانوروں کو مانع حمل ادویات دی جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے چڑیا گھروں میں ایسا کوئی عمل اختیار نہیں کیا جاتا۔

لاہور زو سفاری میں گزشتہ سال کے آغاز میں ایک شیر اور شیرنی کو بیماری کے باعث مار دیا گیا تھا۔ دونوں کو زہر کے انجیکشن دیے گئے تھے۔

انتظامیہ نے بتایا تھا کہ شیر اور شیرنی کو جینیاتی بیماری لاحق تھی۔

XS
SM
MD
LG