رسائی کے لنکس

محکمہٴ انسداد دہشت گردی کی کارروائی، دو خواتین سمیت چار افراد ہلاک


ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق، ساہیوال واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہےجس کی سربراہی ڈی آئی جی ذوالفقار حمید کریں گے

پاکستان کے صوبہٴ پنجاب کے وسطی ضلعے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کارروائی کرتے ہوئے ایک مبینہ مقابلے کے دوران دو خواتین سمیت چار افراد کو ہلاک کر دیا۔

سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق دہشتگرد کار میں سوار تھے۔ کارروائی کے دوران تین بچوں کو بھی بازیاب کرا لیا گیا۔ سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ کارروائی میں مارے جانے والا ایک شخص داعش کا سرغنہ ہے۔

مبینہ پولیس مقابلے کی رپورٹ انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی کو پیش کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ’’سی ٹی ڈی نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر کارروائی کی گئی جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک چار دہشت گرد ہلاک ہوگئے‘‘۔

ترجمان کے مطابق، ہفتے کی دوپہر ٹول پلازہ کے قریب سی ٹی ڈی ٹیم نے ایک کار اور موٹر سائیکل کو روکنے کی کوشش کی، جس پر کار سواروں نے سی ٹی ڈی اور حساس ادارے کی ٹیم پر فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی فائرنگ میں، دو خواتین سمیت چار دہشت گرد ہلاک ہو گئے، جبکہ تین دہشت گرد موقع سے فرار ہوگئے۔

آئی جی پنجاب کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق، دہشت گرد چیکنگ سے بچنے کے لیے خاندان کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔

ساہیوال واقعے میں مرنے والے افراد کے اہلِ علاقہ نے واقعے کے خلاف پنجاب کے صوبائی دارلحکومت لاہور میں فیروزپور روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے سڑک بلاک کردی، جس کے باعث میٹرو بس سروس معطل ہوگئی۔ اہلِ علاقہ نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا فوری مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ جب تک ملزمان کو سزا نہیں ملتی احتجاج جاری رہے گا۔ اہل علاقہ میں سے نبیل غضنفر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تمام مرنے والوں کو گزشتہ 25 سال سے جانتے ہیں۔ بقول اُن کے’’ یہ دہشتگرد نہیں ہو سکتے‘‘۔

اُنھوں نے بتایا کہ “یہ تو پانچ وقت کے نمازی پرہیزگار افراد ہیں۔ تمام افراد بہت ملنسار تھے۔ ہم نے انہیں کبھی کسی قسم کی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نہیں دیکھا”۔

ایک اور اہل علاقہ ریاض احمد کے مطابق مرنے والے تمام افراد ان کے پڑوسی تھے جو اکثر اُن کی دکان پر گھر کا سودا سلف لینے آیا کرتے تھے۔ ریاض احمد کہتے ہیں کہ پولیس نے انہیں جان بوجھ کر مارا ہے۔

بقول اُن کے“یہ پولیس کی غنڈہ گردی ہے۔ یہ سارا خاندان دہشتگرد نہیں ہو سکتا۔ پولیس کو اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہو گی۔ پولیس معصوم افراد کو نشانہ بنا رہی ہے”۔

مشکوک دہشتگرد مارے جانے اور لوگوں کے احتجاج کی خبر ذرائع ابلاغ پر آنے کے بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلٰی پنجاب سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیر اعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کے مطابق، ساہیوال والے واقعے کا آئی جی پنجاب نے بھی نوٹس لے لیا ہے ۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا تھا کہ واقعہ کے ہر پہلو کا جائزہ لینے کے لیے انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے، جبکہ تمام حقائق عوام کے سامنے لائے جائینگے۔

اُنھوں نے بتایا کہ وزیر اعلٰی کی ہدایت پر اِس واقعہ میں ملوث سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ بقول اُن کے، ’’واقعے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اِس میں دہشتگرد مارے گئے ہیں جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں ایک عام فیملی سفر کر رہی تھی۔ وزیر اعظم نے اِس واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے، انکوائری مکمل ہوتے ہی تمام تر تفصیلات سامنے لائی جائینگی”۔

ترجمان پنجاب پولیس نبیلہ غضنفر کے مطابق، ساہیوال واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہےجس کی سربراہی ڈی آئی جی ذوالفقار حمید کریں گے۔ نبیلہ غضنفر کے مطابق جےآئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کےافسران بھی شامل ہوں گے جب کہ جے آئی ٹی تین روز میں تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گی۔

مقامی میڈیا کے مطابق، سی ٹی ڈی کی کارروائی میں زخمی ہونے والے بچے عمر خلیل نے اسپتال میں میڈیا کو اپنے بیان میں بتایا کہ وہ گاڑی میں سوار ہو کر چچا کی شادی میں شرکت کے لیے بورے والا گاؤں جارہے تھے۔ بچے کے مطابق گاڑی میں اس کے اور اس کی دو چھوٹی بہنوں کے علاوہ والد خلیل، والدہ غضنفر، بڑی بہن اریبہ اور والد کا دوست مولوی سوار تھے، جو واقعے میں ہلاک ہوئے۔

سی ٹی ڈی کے مطابق یہ کارروائی فیصل آباد میں 16 جنوری کو ہونے والے آپریشن کا تسلسل ہے جس میں سی ٹی ڈی نے دو مبینہ دہشتگردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق، ہلاک ہونے والے ایک دہشت گرد کی شناخت ذیشان کے نام سے ہوئی، جو کالعدم تنظیم داعش کا مقامی سرغنہ تھا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق، مارے گئے افراد پنجاب میں داعش کے سب سے خطرناک دہشت گردوں میں شامل تھے اور یہی دہشت گرد امریکی شہری وارن وائن اسٹائن اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے اغوا میں بھی ملوث تھے۔

XS
SM
MD
LG