رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان میں حالات اتنے بھی اطمینان بخش نہیں


شمالی وزیرستان میں جانے کا مرکزی راستہ۔ سدگئی پوسٹ
شمالی وزیرستان میں جانے کا مرکزی راستہ۔ سدگئی پوسٹ

دہشت گردی اور انتہا پسندی سے زیادہ متاثر شمالی وزیرستان میں حکومتی اداروں اور عہدیداروں کے دعوؤں کے باوجود امن و امان کی صورت حال کچھ زیادہ تسلی بحش نہیں ہے جبکہ سرکاری عہدیداروں اور عام لوگوں کے درمیان ماضی کی طرح اب بھی کافی فاصلے دکھائی دیتے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں تحصیل دتہ خیل اور شوال میں دہشت گردی کی خطرات کے پیش نظر عام لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں اور جون 2014 کے فوجی کاروائی ضرب عضب کے نتیجے میں یہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی نہیں ہوئی ہے۔ اور اسی وجہ سے 15 ہزار خاندان اب بھی بنوں اور خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ افغانستان کے سرحدی صوبے خوست سے واپس آنے والے ہزاروں خاندان بنوں سے ملحقہ نیم قبائلی علاقے بکاخیل میں قائم خیمہ بستی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

بنوں سے شمالی وزیرستان داخل ہوتے ہی سیدگی چیک پوسٹ سے لے کر افغانستان کے ساتھ گزرگاہ غلام خان، شوال اور جنوبی وزیرستان سے ملحقہ رزمک تک قدم قدم پر سیکورٹی اہل کار صبح سے شام تک امن و امان قائم رکھنے کے لئے پہرے دے رہے ہیں جبکہ علاقے کی تمام اہم سڑکوں اور راستوں پر دن بھر سیکورٹی اہل کاروں کے دستے پیدل اور گاڑیوں کے ذریعے گشت کرتے رہتے ہیں۔

سدگئی چیک پوسٹ کا ایک بیرونی منظر
سدگئی چیک پوسٹ کا ایک بیرونی منظر

اندرونی حالات کچھ مختلف ہیں

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان احسان اللہ داوڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بظاہر تو حالات اچھے دکھائی دیتے ہیں مگر اندرونی طور پر حالات انتہائی مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رات کے وقت دیہی علاقوں میں اب بھی مسلح عسکریت پسندوں کی موجودگی اور گشت نے عام لوگوں کو خوفزدہ کردیا ہے۔

تاہم انجینئر ملک یحییٰ کا کہناہے کہ طویل عرصے تک اس علاقے میں عسکریت پسندوں کا راج تھا جس کی وجہ سے نہ صرف یہاں پر ریاستی عمل داری کمزور رہی تھی بلکہ اس علاقے کے زیادہ تر لوگوں نے نقل مکانی کی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ حالات بتدریج بہتر ہورہے ہیں۔

شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا سلسلہ لگ بھگ تین سال پہلے شروع ہوا تھا۔ میر علی اور میران شاہ کے مختلف گاؤں اور دیہاتوں بالخصوص میران شاہ کو بنوں افغانستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہ غلام خان اور رزمک ملانی والی شاہراہوں کے کنارے آباد گاؤں میں معمول کی کاروبار زندگی کی شروعات دکھائی دے رہی ہیں۔

سیدگی میں سیکورٹی اندارج

خیبر پختون خوا کے جنوبی شہر بنوں سے لگ بھگ آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر سیدگی میں داخل ہوتے ہی سیکورٹی فورسز کے دستے تعینات ہیں۔ یہاں پر پہنچتے ہی تمام افراد کو چوکی کے اندر تعینات سیکورٹی اہل کاروں کے سامنے کھڑے ہو کر انداج کے لئے شناختی کارڈ دینے ہوں گے۔

اس سیکورٹی چوکی میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والوں کے لئے دو کھڑکیاں جبکہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور غیر مقامی باشندوں کے لئے ایک کھڑکی ہے۔

کھڑکی کے سامنے جا کر معلوم ہوا کہ وردی کے بغیر ایک سیکورٹی اہل کار نے شناختی کارڈ وصول کرنے اور اندارج کرنے سے انکار کردیا۔ جبکہ ان کا ایک ساتھی جو غالباََ شمالی علاقوں چترال یا گلگت بلتستان سے دکھائی دیتا تھ، کھانے کھانے میں مصروف تھا۔ کسی سرکاری ادارے کے لئے سامان رسد لے جانے والے ڈرائیور نے جب اندارج کرنے کا کہا تو متعلقہ سیکورٹی اہل کاروں نے ان کا استقبال انتہائی نامناسب الفاظ سے کیا۔

اندراج کرنے کے بعد ایک چھوٹی سی پرچی تھی دی گئی جبکہ گاڑی کا اندارج بھی ایک علیحدہ پرچی پر دیا گیا۔ تھوڑے سے فاصلے پر ایک اور چوکی پر گاڑی میں بیٹھے تمام افراد کی شناخت دوبارہ کی گئی اور انداج والی پرچی کو قبضے میں لے کر آگے جانے کی اجازت دے دی گئی۔

میرعلی قصبے سے گزرنے والی ایک شاہراہ
میرعلی قصبے سے گزرنے والی ایک شاہراہ

میر علی کا منظر

شمالی وزیرستان کے حدود میں داخل ہو کر کچھ عجیب سا لگا کہ سڑک کے کنارے چھوٹے بڑے پہاڑوں میں سیکورٹی کے اہل کار کلاشنکوفوں کے ساتھ پہرہ دے رہے تھے۔

ماضی کے برعکس کچھوری چیک پوسٹ کا منظر بھی عجیب تھا۔ اس چیک پوسٹ کے چاروں طرف سیکورٹی کے اہل کار چوکس کھڑے تھے، جبکہ چند سال قبل خودکش حملوں کی زد میں آنے والی چوکیوں کا ملبہ بھی اُسی طرح بکھرا پڑا تھا۔

کجھوری چیک پوسٹ کے ساتھ واقع گورنمنٹ ڈگری کالج میر علی کی چار دیواری، جسے حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہے، بہت خوبصورت دکھائی۔کچھ فاصلے پر میر علی قصبے کے حدود شروع ہو جاتی ہیں۔ میر علی کے باہر ڈرائیوروں کے ہوٹلوں پر افغانستان سے سامان لانے اور لے جانے والے ٹرک نمایاں نظر آ رہے تھے کیونکہ ان کے رجسٹریشن نمبر بالکل واضح تھے۔

میر علی کے حدود میں داخل ہونے کے بعد فوج کے زیر انتظام تعمیر کی گئی مارکیٹس بہت نمایاں دکھائی دے رہی تھیں، جبکہ اس کے ساتھ ہی حال ہی میں تعمیر کی گئی مقامی قبائلیوں کی مارکیٹس اور دکانیں بھی تھی۔ میر علی شہر کی حدود میں فوج کی جانب سے حال ہی میں تعمیر کی جانے والی ایڈن رد آرمی پبلک سکول کی عمارت تھی۔ اس عمارت کو دیکھ کر کسی مغربی ملک کے فوجی دفتر کا گمان ہوتا تھا۔ باہر سے اس کا نظارہ بہت خوبصورت تھا۔

میر علی سے اگے سب سے اہم مقام خدی گاؤں تھا۔ اس گاؤں کے باہر سڑک پر پولیس آفیسر طاہر خان داوڑ کی یاد میں تعمیر کی گئی یادگار تھی۔ یادگار پر طاہر خان کا نام انتہائی نمایاں تھا۔ یہاں پر کھڑے ہو کر راقم نے فاتحہ خوانی کی۔ یہاں سے گزرنے والی ہر گاڑی والوں کی نظریں اس یادگار پر پڑتی ہیں۔

چشمہ کا سیاحتی مرکز

آگے جانے کے بعد چشمہ گاؤں آتا ہے۔ اس گاؤں کو اب نہ صرف شمالی وزیرستان بلکہ ملک بھر سے آنے والوں کے لئے قابل دید بنایا گیا ہے۔ یہاں پر ایک فٹ بال گراونڈ، ایک سیاحتی مرکز، پارک، شاپنگ مال اور مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ چشمہ فٹ بال گراونڈ پر 16 ٹیموں کے درمیان ٹورنامنٹ کا افتتاحی میچ بنوں اور شمالی وزیرستان کے ٹیموں کے درمیان کھیلا جا رہا تھا۔ میر علی اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی راہنما اور فوج کے مقامی عہدیدار کو میچ دیکھنے کے لیے مہمانوں کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔

ایشا چیک پوسٹ اور کمرشل ایریا

چشمہ سے لگ بھگ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایشا چیک پوسٹ کی عمارت ہے۔ اس چیک پوسٹ پر پہلا کار بم خودکش حملہ 2005 میں ہوا تھا جس میں وسط ایشائی ملک قازقستان کے سفارت کار کی چرائی گئی موٹرکار کا استعمال ہوئی تھی۔

ایشا چوکی پر 2005 سے لے کر جون 2014 تک دہشت گردوں کے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ اس چوکی کی عمارت کی از سر نو تعمیر نو کی گئی ہے۔ یہ چوکی شمالی وزیرستان کے میران شاہ، رزمک اور میر علی کو ایک دوسرے سے ملاتی ہے۔

اس سے ملحقہ تحصیل بویا میں اب بھی دہشت گردی اور تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ایشا چیک پوسٹ سے میران شاہ شہر کے حدود شروع ہوتی ہیں۔ یہاں پر فوج نے آپریشن کے دوران 1341 دکانوں پر مشتمل ایک بڑا کمرشل ایریا تعمیر کیا ہے۔ زیادہ تر دکانیں خالی تھی۔

ایک دکاندار نے بتایا کہ ایک دکان کا ماہانہ کرایہ دس ہزار روپے جبکہ پیشگی پانچ لاکھ ہے۔ مارکیٹ کے احاطے میں فوج کے ذیلی خفیہ اداروں کے اہل کار واکی ٹاکی لیے چوکس کھڑے تھے اور ان کے موجودگی کی وجہ سے دکاندار اور عام لوگ بہت محتاط تھے۔

مارکیٹ سے کچھ فاصلے پر میران شاہ کیمپ کا احاطہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کیمپ میں سول اور فوجی عہدے داروں کے دفاتر قائم ہیں۔ کسی بھی شخص کو بغیر اندارج اور میزبان کی اجازت کے بغیر کیمپ کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ جبکہ اکثر عہدے دار مصروفیت کا بہانہ بنا کر ملک کے دوسرے علاقوں سے آنے والے صحافیوں سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔

غلام خان چیک پوسٹ
غلام خان چیک پوسٹ

غلام خان میں ملبے کے ڈھیر بکھرے پڑے ہیں

افغانستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہ غلام خان میران شاہ سے لگ بھگ 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ میران شاہ سے نکلتے ہی ڈانڈے درپہ خیل کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جو ماضی میں حقانی نیٹ ورک کا مرکز رہا ہے۔

یہاں ٹوٹی پھوٹی عمارتیں، منہدم مکانات اور ملبے کے ڈھیر ڈانڈے درپہ خیل میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کاروائیوں کی کہانی سنا رہے ہیں۔ میران شاہ سے غلام خان تک سیکورٹی فورسز کے دستے تعینات ہیں اور جگہ جگہ سیکورٹی اہل کار پہاڑوں اور کھیتوں میں گشت کرتے نظر آتے ہیں۔

مسمار اور تباہ شدہ املاک شمالی وزیرستان کے سیدگی چوکی میں پہنچنے کے بعد نہ صرف ڈانڈے درپہ خیل بلکہ میر علی، میران شاہ اور آس پاس کی بستیوں اور دیہاتوں میں بھی خودکش بم حملوں اور ضرب عضب کی فوجی کاروائیوں کی زد میں آنے والی املاک کے کھنڈر اور ملبے دکھائی دیتے ہیں۔ میر علی سے باہر کھجوری میں بھی ایک تباہ حال پیٹرول پمپ کا ملبہ بکھرا پڑا ہے۔ اس پیٹرول پمپ میں بیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں اکثریت ڈرائیوروں کی تھی۔

نئی تعمیرات جاری ہیں

شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں سڑک کے کنارے نئی تعمیرات کی گئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ نئی تعمیر کی جانے والے عمارتوں میں ماضی کے مقابلے میں کافی جدت دکھائی دیتی ہے۔ سڑک کے کنارے کئی منزلہ تجارتی مارکیٹوں کی تعمیر کا رواج عام ہے۔ اہم سڑکوں اور شاہراہوں سے کچھ فاصلے پر واقع بستیوں اور دیہاتوں میں بدامنی اور دہشت گردی کے دوران تباہ ہونے والے زیادہ تر گھروں اور عمارتوں کی تعمیر ابھی تک شروع نہیں ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ تباہ شدہ املاک کے مالکان ابھی تک روپوش ہیں۔

لوگ خوفزدہ اور محتاط ہیں

شمالی وزیرستان کی مختلف بستیوں، دیہاتوں اور قصبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، عمومی طور پر حکومت، حکومتی اداروں بالخصوص سیکورٹی اداروں کے عہدے اروں اور اہل کاروں کے پالیسیوں اور کارکردگی سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔ مختلف سطح پر ہونے والے گفتگو اور گپ شپ سے معلوم ہوا کہ لگ بھگ 80 فیصد لوگ ابھی تک غیر مطمئن، مایوس اور خوفزدہ ہیں۔ اور وہ کسی بھی قیمت پر آن دی ریکارڈ بات کرنے بالخصوص ذرائع ابلاع کے نمائندوں کو کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں۔

XS
SM
MD
LG