رسائی کے لنکس

یہ لاہور قلندرز کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟


لاہور قلندرز کو پی ایس ایل فائیو کے ابتدائی دونوں میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
لاہور قلندرز کو پی ایس ایل فائیو کے ابتدائی دونوں میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پاکستان سپر لیگ کے پچھلے چاروں سیزنز میں لاہور قلندر کی ٹیم بڑے بڑے ناموں پر مشتمل رہی ہے لیکن ہر بار ٹیم نے اپنے سفر کا اختتام پوائنٹس ٹیبل پر سب سے آخر میں کیا حتی کہ پچھلے سال ملتان سلطان کی ٹیم جو پہلی بار میدان میں اتری تھی، وہ بھی قلندرز سے بہتر پوائنٹس اور پوزیشن پر اپنا ٹورنامنٹ ختم کرنے میں کامیاب رہی۔

اب جب کہ سیزن فائیو شروع ہو چکا ہے، قلندرز کی حالت بدلتی نظر نہیں آتی۔ ابتدائی دونوں میچوں میں ٹیم شکست سے دوچار ہو چکی ہے اور پوانٹس ٹیبل پر آخری نمبر پر ہے۔

اس بارکرکٹ کے تجزیہ کاروں اور مداحوں کے خیال میں لاہور قلندر کے مالک اور انتظامیہ نے بڑے بڑے مہنگے نام ٹیم میں شامل کرنے کی بجائے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرح ’’ سپرسٹارز‘‘ کی نسبت کچھ سٹار اور کچھ ٹیلنٹڈ لڑکوں پر مشتمل ٹیم بنائی ہے۔ ان میں سے کئی ایک نے پاکستان کے لیے کھیل رکھا ہے اور اس وقت بھی پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا لازمی حصہ ہیں۔ جیسے محمد حفیظ، فخر زمان، شاہیں آفریدی، حارث روف۔ لیکن مشکل ٹلتی نظر نہیں آتی۔

اتوار کو اسلام آباد یونائٹیڈ کے خلاف کھیلے گے میچ میں جیتا ہوا میچ ٹیم ہار گئی۔ قلندرز کا باؤلنگ اٹیک جو معروف ناموں پر مشتمل ہے یعنی شاہیں آفریدی جو پاکستان کے لیے ٹی ٹوئنٹی میں 40 وکٹیں لے چکے ہیں، حارث رؤف جن کی باؤلنگ نے بگ بیش میں دھاک بٹھا دی اور ان کو پاکستان کیپ مل گئی۔ عثمان شنواری جو پاکستانی ٹیم کے لیے تمام فارمیٹس میں کھیل چکے ہیں، آخری تین اوورز میں اسلام آباد یونائٹد کی آخری وکٹ نہ لے سکے اور موسی خان اور علی عبداللہ نے ناتجربہ کار ہونے کے باوجود بیس رنز جوڑ کر ٹیم کو فتح دلا دی۔ خاص طور پر موسی نے جس نے آخری اوور میں جب نو رنز چاہیے تھے تو پہلی ہی گیند پر عثمان شنواری کو چھکا جڑ دیا اور میچ اپنی ٹیم کے نام کر دیا۔

قلندرز کی ناکامی پر لاہویوں کو بہت دکھ ہوا، جس کا اظہار انہوں نے ٹوئیٹر پر مختلف طریقوں سے کیا۔ یہ ہیں عثمان علی

پچھلے سیزنز میں اے بی ڈولئر، بابر اعظم، جیسن رائے، محمد حفیظ، فخر زمان، عمر اکمل، یاسر شاہ، گپٹل، راس ٹیلر، شکیب الحسن جیسے نام لاہور قلندر کا حصہ رہے، لیکن عجب بات ہے کہ کوئی بھی ٹی ٹوئنٹی سپیشلسٹ قلندر کے لیے دما دم مست قلندر نہ کر سکا۔ اور بابر اعظم اور جیسن جیسے کھلاڑی جب دوسری ٹیموں میں گئے تو پرفارم کرنے لگے۔

بات صرف کھلاڑیوں کی نہیں، ٹیم کے کوچ عاقب جاوید ہیں۔ پاکستان کے لیے 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے اہم رکن تھے۔ کرکٹ ڈیولپمنٹ پر بہت کام کیا ہے۔ گراس روٹ لیول پر کوچنگ کی ہے۔ اکیڈمیز کے لیے خدمات انجام دی ہیں۔ لاہور قلندرز کے مالک اور ہردلعزیز شخصیت، ہار کے باوجود چہرے پر مونچھیں اور مسکراہٹ سجانے کے باعث سراہے جانے والے رانا فواد ہیں۔

ٹوئیٹر کے ایک صارف حمزہ نے اس موقع پر ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

یہ ٹیم پچھلے چاروں سیزنز میں پیپرز پر ایک متوازن اور وننگ کمبی نیشن والی ٹیم نظر آتی رہی ہے لیکن ہر بار سب سے نیچے ہی کیوں رہ جاتی ہے۔ پچھلے سیزن میں لاہور قلندر نے دس میچوں میں سے صرف تین جتیے اور کم از کم تین میچ میں فتح کے قریب ہو کر بھی فتحیاب نہ ہو سکی۔ لاہور قلندرز کا مسئلہ کیا ہے؟

کرکٹ کمنٹیٹرشاہ فیصل کہتے ہیں کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ کرکٹ میں جیتنا بعض ٹیموں کی عادت بن جاتا ہے، اسی طرح کچھ ٹیموں کا ہارنا ان کی عادت بن جاتا ہے۔

اس پر ایک ٹوئیٹر صارف احمد جمیل نے یہ دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔

لاہور قلندرز اول تو جیت سے دور رہتے ہیں، اگر جیت کے قریب آ بھی جائیں تو ان کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ پریشر نہیں لے سکتے اور میچ ہار جاتے ہیں۔

کرکٹ کمنٹیٹرز بھی کہہ رہے تھے کہ لاہور قلندر کی ٹیم 6 سے 15 اوورز کے دوران بلے بازی میں بدترین سائیڈ ثابت ہوئی ہے۔

سابق کرکٹر جلال الدین کہتے ہیں کہ لاہور قلندر کی مسلسل ہار کی وجہ ٹیم نہیں ہے۔ مینیجمنٹ کو بھی کچھ ذمہ داری لینا ہو گی۔

’’ ٹیم کے مالک رانا فواد ہر سال کھلاڑی تو بدلتے ہیں، کبھی کوچ بدل کر دیکھیں‘‘

جلال الدین کے مطابق عاقب جاوید کی خدمات کرکٹ ڈیولپمنٹ کے لیے لاجواب ہیں لیکن وہ لاہور قلندر کو بطور کوچ ایونٹ نہیں جتوا سکے۔ وہ ٹیم کو جیل مطلب ایک دوسرے کے ساتھ یونٹ کی صورت ڈھال نہیں سکے۔ ٹیم تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی بھی ہمیشہ کوئی بڑے ناموں پر مشتمل نہیں ہوتی لیکن وہ ہر بار فائنل میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹیم کا کوچنگ سٹاف اور مینیجمنٹ بہتر پرفارم کر رہے ہیں۔ وہ کمنی نیشن بنا رہے ہیں۔ عاقب جاوید لاہور قلندرز کے لیے کمبی نیشن نہں بنا سکے۔

جلال الدین سمجھتے ہیں کہ قلندرز کی ٹیم میں اس بار بھی چند میچ ونرز موجود ہیں، لیکن کیا وہ یونٹ کے طور پر کھیلتے ہیں؟ اس کا جواب شاید نہیں میں ہے۔

شاہ فیصل کے مطابق لاہور قلندر کا مسئلہ ایونٹ شروع ہونے سے بہت پہلے ڈرافٹ کے مرحلے میں شروع ہو جاتا ہے۔ ڈرافٹ میں جن کھلاڑیوں کو چنا جاتا ہے اس کے پیجھے اپروچ کافی غیر منطقی ہوتی ہے۔ ان سے کمبی نیشن نہیں بن پاتا۔ وہ ڈرافٹ کے وقت زیادہ ہوم ورک نہیں کرتے۔ جب آپ گرداب میں پھنسے ہوں تو ففٹی ففٹی چیزیں بھی آپ کے خلاف جاتی ہے۔ جیسے اتوار کو حارث کا اعتماد متزلزل ہو گیا۔

ٹوئیٹر پر ایک اور صارف احمد نے ایک دلچسپ تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ لاہوری فین اپنی چہتی ٹیم کا کچھ اس طرح انتظار کر رہے ہیں۔

شاہ فیصل کہتے ہیں کہ لاہور قلندرز کو پی ایس ایل میں پشگی شکست کے تاثر سے بچنے کے لیے فریش آئیڈیاز لانا ہوں گے۔ میچ کی تیاری میں جدت لانا ہو گی۔ ان کے پلئیرز بھی غالبا ٹیم کے آئیڈیا کو قبول نہیں کر پاتے۔ ان پلئرز کو گیم پلان اور ٹیم یونٹ کی صورت میں ڈھالنا ہو گا۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG