رسائی کے لنکس

روس، چین اور بھارت کی جانب سے لیبیا میں فوجی کارروائی کی مخالفت


روس، چین اور بھارت کی جانب سے لیبیا میں فوجی کارروائی کی مخالفت
روس، چین اور بھارت کی جانب سے لیبیا میں فوجی کارروائی کی مخالفت

دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی عالمی قوتوں کے نمائندہ گروپ نے لیبیا میں طاقت کے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے بحران کے پرامن حل پر زور دیا ہے۔

چینی شہر سنیا میں جاری برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پہ مشتمل گروپ کا تیسرے سربراہی اجلاس جمعرات کے روز ختم ہوگیا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں لیبیا میں مغربی ممالک کی فوجی مداخلت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وہاں جاری سیاسی بحران کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

تیزی سے ترقی پذیر ان ممالک کے سربراہان نے امریکی ڈالر کی اجارہ داری پر قائم عالمی معاشی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک نئے وسیع البنیاد عالمی کرنسی نظام کے قیام کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

سربراہی اجلاس کے صدارت کرنے والے میزبان ملک چین کے صدر ہوجن تاؤ نے اجلاس کے شرکاء سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران شمالی افریقی ممالک میں ہونے والے سیاسی فسادات اور خانہ جنگی سے خطے کا استحکام بری طرح متاثر ہورہا ہے۔

'برکس' کے نام سے معروف پانچ رکنی گروپ میں شامل چار ممالک – برازیل، روس، چین اور بھارت - نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ اس قرارداد پہ ہونے والی رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا جس میں لیبیا کی فضائی حدود میں 'نو فلائی زون' کے قیام کےلیے عالمی برادری کو فوجی کاروائی کا اختیار دیا گیا تھا۔

'برِکس' میں حال ہی میں شامل کیے گئے پانچویں رکن ملک جنوبی افریقہ نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تاہم جمعرات کے روز تنظیم کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیہ میں جنوبی افریقہ نے بھی مغربی ممالک کی جانب سے لیبیا میں جاری فوجی کاروائی کی مخالفت میں دیگر رکن ملکوں کو ساتھ دیا۔

تنظیم کے سربراہی اجلاس میں 'برِکس' کے رکن ممالک کیلیے عالمی اداروں میں فیصلہ و پالیسی سازی کے مزید اختیارات کے حصول کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔

اپنے خطاب میں صدر ہوجن تاؤ کا کہنا تھا کہ رکن ممالک کے سربراہان کے مابین اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں طاقت کے نئے مراکز کے ابھرنے سے عالمی معیشت کا توازن متاثر ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت میں آنے والی تبدیلیاں پیچیدہ ہیں جن سے نبٹنے اور عالمی معاشی نظام میں اصلاحات کے عمل اور اس کی نگرانی کے نظام کو موثر بنانے کیلیے عالمی برادری کو مذاکرات کرنے ہونگے۔

تنظیم کے رکن ممالک زرِ مبادلہ کا ایک نیا وسیع البنیاد عالمی نظام تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں جس سے جمعرات کے روز جاری ہونے والے اعلامیہ کے بقول "عالمی معیشت میں استحکام پیدا ہوگا اور غیر یقینی صورتِ حال کاخاتمہ ہوگا"۔ موجودہ عالمی معاشی نظام میں امریکی ڈالر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جسے 'برکس' کے رکن ممالک اپنی کرنسیوں کے ساتھ ایک امتیازی سلوک قرار دیتے ہیں۔

اعلامیہ میں تنظیم کے سربراہان نے اقوامِ متحدہ اور سیکیورٹی کونسل میں اصلاحات متعارف کرانے کے مطالبہ کو بھی دہرایا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کو مزید موثر، متحرک اور عالمی برادری کی نمائندہ بنانے کی ضرورت ہے۔

'برکس' کے رکن ممالک دنیا کی کل 'گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ' کا پانچواں حصہ تشکیل دیتے ہیں جبکہ تنظیم کے رکن دو ممالک -چین اور بھارت- آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک ہیں۔

تنظیم کے رہنمائوں نے اپنے اگلے سربراہی اجلاس کی میزبانی بھارت کے سپرد کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ روس اور برازیل اس سے قبل دو اجلاسوں کی میزبانی کرچکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG