رسائی کے لنکس

اطلاعات کی فراہمی پر ٹیکنالوجی کمپنیوں کی اجارہ داری ہوگی


اطلاعات کی فراہمی پر ٹیکنالوجی کمپنیوں کی اجارہ داری ہوگی
اطلاعات کی فراہمی پر ٹیکنالوجی کمپنیوں کی اجارہ داری ہوگی

اکیسویں صدی کا میڈیا ، نئی سرحدیں اور نئی رکاوٹیں ۔۔۔ یہ موضوع تھا تین مئی کو منائے جانے والے ورلڈ پریس فریڈم ڈے کا ، جس کے لئے دنیا کے ایک سو ملکوں میں مختلف نوعیت کی تقریبات منعقد کی گئیں ۔ اور اسی موضوع پر بات ہوئی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم ، سائینس اور ثقافتی امور ۔۔ یونیسکو کی منعقد کردہ ایک کانفرنس میں، جو واشنگٹن کے نیوز میوزئیم ، نیوزئیم میں ہوئی ۔۔۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال دنیا میں اظہار کی آزادیوں کو کچھ نئی قسم کے چیلنجز درپیش ہیں، جن میں سب سے بڑا چیلنج انٹرنیٹ کے ذریعے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی مقبولیت کے بعد روایتی صحافت کا مستقبل ہے ۔

پچھلے چند ماہ میں دنیا نے تاریخ کی ایک انوکھی کروٹ دیکھی ہے ۔ مشرق وسطی ملکوں میں سالوں تک خاموشی سے سلگتی چنگاریوں کو فیس بک ، ٹویٹر اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے پہلی بار ایک چہرہ اور نام عطا کیا ہے ۔۔۔انقلاب کا چہرہ ۔۔

تبدیلی کی یہ لہر اتنی تیز رفتار ہے کہ بادشاہوں کے محلات میں ہی نہیں ، ذرائع ابلاغ کے ایوانوں میں بھی زلزلہ برپا ہے ۔

یعنی اپنے یا کسی دوسرے ملک کے حالات جاننے کے لئےاب آپ کو اخبار، ٹی وی یا ریڈیو جیسے روایتی ذرائع ابلاغ کی ضرورت نہیں رہی ۔۔ لیکن میڈیا کے ماہرین کو اطلاعات کی اس سپر فاسٹ ڈیلیوری سے کچھ زبردست تحفظات ہیں ۔

دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں صحافت کے فروغ کے لئے کام کرنے والی ایک فاؤنڈیشن کے سربراہ ہاورڈ جی بفٹ کہتے ہیں کہ خبر کی فراہمی کا نظام تیزرفتار ، وسیع تر اور عالمی نوعیت کا ہو گیا ہے ،ایسے میں اگر کوئی غلط اطلاع عام ہو جاتی ہے تو اسے درست کرنا ممکن نہیں رہتا ۔ یہ یقینا فکرمندی کی بات ہے ۔ لیکن ان کا خیٰال ہے کہ زیادہ تر لوگ جو صحافت سے منسلک ہیں ، ، وہ درست معلومات کی اہمیت سمجھتے ہیں اور باوجود اس کے کہ بعض اوقات اطلاع کی فراہمی میں رائے شامل ہو جاتی ہے ، زیادہ تر صحافی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایسا نہ کریں ۔ اوروہی کامیاب رہتے ہیں۔

صحافتی صنعت کے ماہرین مانتے ہیں کہ اطلاعات کے اس بلا رکاوٹ بہاو میں عوام کو سہی اور غلط کے درمیان ،،،،خبر اور رائے کے درمیان فرق کرنے کی تعلیم دینا اہم بنتا جا رہا ہے ۔

امریکہ میں صحافت کے فروغ اور ترقی کےمنصوبوں پر ہر سال سب سے خطیر رقم خرچ کرنے والے ادارے نائٹ فاونڈیشن کے سربراہ البرتو آئیبر گوئین کہتے ہیں کہ ان کی فاونڈیشن نے پانچ سال پہلے ہر سال پانچ ملین ڈالر کی رقم اس کام کے لئے مختص کرنے کا فیصلہ کیا تھا ، کہ دنیا بھرسے ایسے اچھوتے تصورات کی حوصلہ افزائی کی جائے ، جن کے تحت پہلے سے موجود ٹیکنالوجی کو ترقی پذیر ملکوں میں نئے اور انوکھے انداز سے استعمال کرکے زیادہ موثر تبدیلی لانے کا خیال پیش کیا گیا ہو۔ البرتو آئیبر گوئین کہتے ہیں کہ ہم کسی نئی ٹیکنالوجی کی تلاش میں نہیں ہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے کسی نئے طریقے سے استعمال کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ اس پراجیکٹ میں ہم شائدکسی صحافتی تحقیق کو فنڈ نہ کریں ۔مگر ہم کسی ایسے نئے طریقے کو فنڈ کر سکتے ہیں جس سے ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے یا انہیں متاثر کرنے کا خیال پیش کیا گیا ہوجس سے شائد کسی تفتیشی صحافی کی مدد ہو سکے ۔ گویا ہم اس پروگرام کے ذریعےاصل جرنلزم پراجیکٹ کے بجائے ایسی کسی جدت کی تلاش میں ہیں ۔۔۔

یہ کہتے ہیں کہ ہم سال میں ایک بار ڈیڑھ ماہ کے لئے ایسا موقعہ پیدا کرتے ہیں ، جس کے لئے ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں ۔ ضروری نہیں کہ لوگ مجھے ایک لمبا خط لکھیں ۔ بس اپنا آئیڈیا واضح کر دیں ۔ ہم مستحق امیدوار کا فیصلہ کرنے کے لئے بیرونی ججز کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور جو آئیڈیا سب سے دلچسپ اور انوکھا ہوتا ہے ، اس سے ہم ایک تفصیلی پروپوزل مانگتے ہیں اورہزاروں درخواستوں میں سے بیس اکیس کا انتخاب ہوتا ہے ۔

ان بیس اکیس افراد کو امریکہ میں میڈیا کی تعلیم دینے والے اداروں میں مزید تربیت کے مواقعے ملتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسی کوششیں میڈیا کو درپیش نئے چیلنجز کا مقابلہ بھی کر سکیں گی ۔۔؟ ماہرین کہتے ہیں کہ آنے والے کل کے میڈیا کو سب سے بڑا مسئلہ خبر سے منافع کمانے میں پیش آئے گا ۔

پیو ریسرچ سینٹر کے پراجیکٹ فار ایکسیلنس ان جرنلزم کے ڈائریکٹر ٹام روزن سٹیل کہتے ہیں کہ ہمیں بیسویں صدی میں ایک خوشگوار حادثے کا سامنا کرنا پڑا تھا ، جب صنعتی انقلاب کے بعد مصنوعات ساز اداروں نے لوگوں تک پہنچنے کے لئے اشتہار بازی کی ضرورت محسوس کی تھی اور صحافت وہ ابتدائی ذریعہ تھا ، جس کی مدد سے انہوں نے ایسا کیا ۔ لیکن یہ سلسلہ اب ٹوٹ رہا ہے ۔ لوگوں کو خبر کی ضرورت اب بھی ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ خبروں سے منافع کمانے کا طریقہ اب کیا ہوگا ۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سکول آف میڈیا اینڈ پبلک افئیرز کے ڈائیریکٹر فرینک سیسنو کہتے ہیں کہ مستقبل کی صحافت کو مواد سے زیادہ ٹیکنالوجی کنٹرول کرے گی ۔ اور روایتی صحافت کو اپنی بقا کے لئے نئے راستے تلاش کرنے ہونگے ۔

فرینک سیسنو کہتے ہیں کہ جو لوگ صحافت کر رہے ہیں ، انہیں اپنا انداز بدلنا ہوگا ۔ انہیں اپنی بات کہنے کا کوئی زیادہ تخلیقی انداز ڈھونڈنا ہوگا ۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ اخبار یا ٹی وی کے لئے مضمون لکھنے کے دن تبدیل ہو چکے ہیں ۔ انہیں اب ایک نئے ملٹی میڈیا ماحول میں کام کرنا ہے ، جہاں لوگ آن لائن جا سکیں ، اپنے سمارٹ فون ، آئی پیڈ یا ٹیبلیٹ کھول کر پڑھ سکیں گے، تصویریں اور گراف دیکھ سکیں ۔ گفتگو کر سکیں ۔ ٹویٹ یا ٹیکسٹ ۔۔۔سب ایک جگہ جمع ہورہا ہے۔ اس سے خبر ، گفتگو بن جائے گی ، یہ بہت دلچسپی کی بات ہے۔

آزاد صحافت کے علمبرداروں کا نعرہ ہے کہ معلومات ایک مضبوط جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہیں اور زیادہ باخبر لوگ زیادہ اچھے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔لیکن انہیں خدشہ ہے کہ آنے والے کل میں اطلاعات کی فراہمی پر میڈیاکے با اعتبار اداروں کا کنٹرول ختم اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کی اجارہ داری ہوگی ،جس میں صحافتی اداروں کو اپنی آزادی کی جنگ صرف جابر حکومتوں کی پابندیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ اپنی بات آپ تک پہنچانے والی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف بھی لڑنی ہوگی ۔

XS
SM
MD
LG