سپریم کورٹ نے آٹھ سال بعد امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف میمو گیٹ اسکینڈل کیس نمٹا دیا۔ اعلیٰ کورٹ نے کہا کہ حسین حقانی کی گرفتاری یا حوالگی ریاست کا معاملہ ہے۔ میمو کے حوالے سے درخواستیں عجلت میں دائر کی گئیں، جبکہ سپریم کورٹ کا کیس سے فی الحال کوئی تعلق نہیں رہا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کوئی بھی درخواست گزار عدالت میں موجود نہیں۔ قومی وطن پارٹی یا نوازشریف کوئی بھی نہیں آیا۔ درخواست گزار کون ہے؟ اگر کوئی درخواست گزار نہیں آیا تو عدالت یہاں کیوں بیٹھی ہے۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ اس معاملے میں کافی حساس معاملات پوشیدہ ہیں۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس میں عدالت کہاں سے آ گئی؟ مسئلہ یہ تھا کہ ایک سفیر نے میمو لکھ۔ کیا آج یہ حکومت بھی اُس میمو سے کوئی خطرہ محسوس کر رہی ہے؟ 8 سال سے یہ معاملہ زیر التوا ہے۔ میمو سے متعلق عدالت نے کمیشن قائم کیا۔ کمیشن نے اپنی سفارشات دے دیں جن پر ایف آئی آر درج ہو گئی۔ اب ریاست کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ ملزم کے پیچھے جائے اور جو اقدامات لے سکتی ہے وہ لے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ حسین حقانی کے خلاف مقدمہ درج ہوچکا اب ریاست حسین حقانی کو لانا چاہتی ہے تو لے آئے، اس سارے معاملے میں سپریم کورٹ کیسے اور کہاں سے آگئی، اگر کوئی سنگین غداری کا مرتکب ہوا ہے تو ریاست اس کے خلاف کارروائی کرے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب معاملہ عدالت کے سامنے آیا تو حکومت اور سفیر پر الزام تھا۔ اب وہ حکومت اقتدار میں نہیں اور سفیر بھی نہیں ہے۔ اس لیے حکومت جو کرنا چاہتی ہے کرے۔ اگر ملزم تک نہیں پہنچ سکتی یا پہنچنا چاہتی ہے تو اقدمات کرے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیے کہ کیا مملکت خداد، آئین، افواج پاکستان، جمہوریت اتنی کمزور ہے کہ ایک میمو سے لڑکھڑا جائے؟ ہمارا آئین اور جمہوریت انتہائی مضبوط ہے۔ الحمدللہ پاکستان مضبوط ملک ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے مختصر سماعت کے بعد کہا کہ اب عدالت کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جس کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے کیس نمٹا دیا۔
گزشتہ سال فروری میں سپریم کورٹ نے امریکہ میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی سے متعلق متنازع میمو گیٹ کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ گزشتہ سال 22 جنوری کو امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف فوج اور ملک مخالف تقاریر، مضامین اور کتابیں تحریر کرنے کے الزام میں غداری کے 3 مقدمات دو تھانوں میں درج کر دیے گئے تھے۔
میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا۔ جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔
یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو روکنے سے متعلق حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا تھا۔
اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس الزام کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔