رسائی کے لنکس

بلوچستان سے ایک سال قبل لاپتہ ہونے والا ایک نوجوان گھر واپس لوٹ آیا


وفاقی کابینہ نے جبری گمشدگی کو مجرمانہ فعل قرار دینے کا بل منظور کر لیا ہے جو پارلیمان سے منظور ہونے کے بعد باقاعدہ قانون بن جائے گا۔
وفاقی کابینہ نے جبری گمشدگی کو مجرمانہ فعل قرار دینے کا بل منظور کر لیا ہے جو پارلیمان سے منظور ہونے کے بعد باقاعدہ قانون بن جائے گا۔

بلوچستان میں پچھلے برس لاپتہ ہونے والے حسان قمبرانی اپنے گھر لوٹ آئے ہیں۔ اس خبر کی تصدیق جمعہ کے روز حسان قمبرانی کی بہن حسیبہ قمبرانی نے ایک ٹویٹ میں کی۔

حسان قمبرانی ان بلوچ لاپتہ افراد میں شامل تھے جن کے اہل خانہ ایک عرصے سے ان کی بازیابی کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ تین روز قبل حسیبہ نے ٹوئٹ میں تصدیق کی تھی کہ ان کے ایک کزن حزب اللہ قمبرانی بھی ان کے بقول ایک سال کی مبینہ جبری گمشدگی کے بعد بازیاب ہوگئے تھے۔

رواں ہفتے دو بلوچ لاپتہ نوجوانوں کی واپسی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حال ہی میں پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شیری مزاری نے تصدیق کی ہے کہ وفاقی کابینہ نے جبری گمشدگی کو مجرمانہ فعل قرار دینے کا بل منظور کر لیا ہے جو پارلیمان سے منظور ہونے کے بعد باقاعدہ قانون بن جائے گا۔ شیریں مزاری کا کہنا ہے یہ بل قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس کے دوران ایوان میں پیش کردیا جائے گا۔

پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایک عرصے سے لاپتہ ہیں، جن میں بلوچ بھی شامل ہیں۔ اگرچہ ان لاپتہ افراد کے اہل خانہ ان کی گمشدگی کا الزام بعض ریاستی اداروں پر عائد کرتے ہیں،مگر ریاستی اداروں کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔

دوسری جانب حکومت کی طرف سے قائم کردہ لاپتہ افراد کا کمیشن ان کی بازیابی کے لیے ایک عرصے سے کوشاں ہے، لیکن اب بھی یہ معاملہ پوری طرح حل نہیں ہوسکا ہے۔

بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب اور انسانی حقوق کے کارکن ان لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتےآرہے ہیں اور اس سلسلے میں ایک عرصے سے احتجاجی مظاہروں کی ذریعے اپنی آواز متعلقہ حکام تک پہنچاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بلوچ لاپتہ افراد کے لگ بھگ 13 خاندانوں نے رواں سال فروی میں چار دن تک دھرنا دیا تھا، جو اانسانی حقوق کی وزیر شیرین مزاری کی اس یقین دہانی پر ختم کر دیا گیا تھا کہ ان خاندنوں کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کروائی جائے گی۔

ان خاندانوں کے 13 افراد لاپتہ تھے اور ان دو افراد کی واپسی کے بعد ابھی تک دیگر 11 لاپتہ افراد کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئی ہے۔

مارچ میں وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والے تین رکنی وفد میں وائس آف مسنگ بلوچ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ بھی شامل تھے۔ نصراللہ بلوچ کے مطابق اس وقت وزیر اعظم نے انہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ گمشدہ افراد کی بازیابی کے معاملے پر آرمی چیف اور فوج کے خفیہ ادارے 'آئی ایس آئی' کے سربراہ سے بات کریں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نصراللہ بلوچ نے لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی واپسی کو خوش آئند قرارداد دیتے ہوئے دیگر لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی جلد رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ اب ملک کے متعلقہ ادارے بھی اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ پرامید ہیں کہ باقی لاپتہ افراد جلد بازیاب ہوں گے اور مبینہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ قانون کے مطابق حل ہو جائے گا۔

نصراللہ بلوچ کے بقول لاپتہ افراد کے معاملے کی وجہ سے بین لاقوامی سطح پر پاکستان کا تشخص بھی مجروح ہوتا ہے۔

نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جبری گم شدگی کے معاملے کو انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت حل کرنا چاہیے اور اگر کوئی ریاست مخالف یا کسی اور مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہے تو اس کے خلاف ملک کے آئین اور قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔

پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان سے بھی لاپتہ افراد کے بارے میں مختلف اعدادو شمار سامنے آتے رہے ہیں۔ بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق بلوچ لاپت افراد کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ لیکن بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے کہا ہے کہ اپنے لاپتہ افراد کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کریں۔ دوسری جانب ان کے بقول لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کمیشن میں بھی 130 لاپتہ افراد کے کیس زیر التوا ہیں۔

لیکن نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ تصدیق کے بعد ان کی تنظیم نے بلوچستان کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو 950 لاپتہ بلوچ افراد کی الگ الگ فہرستیں فراہم کی ہیں اور ان میں سے اب تک 330 افراد بازیاب ہو چکے ہیں اور وہ توقع کرتے ہیں کہ حکومت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بھی جلد اقدامات کرے گی۔

XS
SM
MD
LG