رسائی کے لنکس

حکومت کا جبری گمشدگیوں کے معاملے پر قانون سازی تیز کرنے کا عندیہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ حکومت جبری طور پر لاپتا افراد سے متعلق قانون سازی سے دستبردار نہیں ہو رہی۔

اسلام آباد میں پیر کو وزارتِ انسانی حقوق کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ کسی جمہوری ملک میں شہریوں کو لاپتا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور یہ عمل ناقابلِ قبول ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دو ہفتے قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں لاپتا افراد سے متعلق قانون سازی پر دوبارہ بات چیت ہوئی تھی اور وزیرِ اعظم عمران خان نے وزیرِ قانون کو ہدایت کی ہے کہ اس قانون کو جلد منظور کرایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ "اگر کسی شخص سے مسائل ہیں تو اس کے لیے قانون موجود ہیں لیکن جمہوریت میں یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ لوگوں کو اٹھا کر لے جائیں اور لوگ لاپتا ہوجائیں۔"

یاد رہے کہ پاکستان کی وزارت برائے انسانی حقوق نے 2019 میں جبری طور پر لاپتا افراد کے حوالے سے قانونی بل ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) میں پیش کیا تھا جسے قانونی جائزے کے لیے وزارتِ قانون کو بھجوایا گیا تھا۔

یہ بل تاحال وزارتِ قانون کے پاس موجود ہے اور وزیر انسانی حقوق نے امید ظاہر کی ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت کے بعد یہ قانون جلد منظور ہو جائے گا۔

پاکستان میں افراد کا لاپتا ہونا ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کے بعد کئی افراد رہا کیے جا چکے ہیں تاہم متعدد افراد اب بھی لاپتا ہیں۔

لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں کو لاپتا کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تاہم سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ان الزامات کی ہمیشہ تردید سامنے آتی رہی ہے۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کہ وزیرِ اعظم کی دوبارہ ہدایت کے بعد لاپتا افراد سے متعلق بل پر مثبت پیش رفت ہو رہی ہے اور اس ضمن میں کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس بھی ہو چکا ہے۔

وزیر انسانی حقوق نے امید ظاہر کی کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی سے بل کی منظوری کے بعد اسے آئندہ دو ہفتوں میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کر دیا جائے گا۔

وزارتِ انسانی حقوق کی طرف سے تیار کردہ اس بل میں جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کرنے کی تجویز شامل ہے۔

'حکومت سنجیدہ نہیں'

پاکستان میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن حنا جیلانی کہتی ہیں کہ وزارتِ انسانی حقوق کا پیش کردہ قانونی مسودہ لاپتا افراد کے مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کر سکتا اور نہ ہی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ قانونی بل افراد کو جبری طور پر لاپتا کرنے کی ذمہ داری انفرادی حیثیت میں عائد کرتا ہے نہ کہ کسی ادارے پر۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کا معاملہ پھر زیرِ بحث
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:59 0:00

حنا جیلانی کے بقول، "لاپتا افراد کا مسئلہ صرف قانون سازی سے نہیں بلکہ خفیہ اداروں کو جواب دہ بنانے سے حل ہو گا اور ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو خفیہ اداروں کو اپنی حدود سے باہر جانے پر جواب دہ بنائے۔"

اُن کا کہنا تھا حکومت کہتی ہے کہ لاپتا افراد کے ذمہ داران کے خلاف فوجداری مقدمات قائم ہوں گے لیکن ایسے واقعات کی تاریخ بتاتی ہے کہ انفرادی طور پر کسی کو ذمہ دار ٹھہرانا اور اسے تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کے لیے بنایا گیا کمیشن ہر مہینے کہتا ہے کہ لوگوں کو بازیاب کرایا گیا ہے لیکن یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔

حنا جیلانی کے خیال میں حکومت سمجھتی ہے کہ ایک غیر مؤثر قانون لا کر اس معاملے کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا حقیقت میں ممکن نہیں۔

یاد رہے کہ 2011 میں حکومتِ پاکستان نے لاپتا افراد کی بازیابی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا جس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے 2018 میں سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کو بتایا تھا کہ 153 فوجی اہلکار شہریوں کو لاپتا کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔

جبری طور پر لاپتا افراد کے کمیشن کی تازہ ماہانہ رپورٹ کے مطابق اُنہیں تقریباً سات ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے پانچ ہزار کو حل کیا جا چکا ہے۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اپنی وزارت کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق سب سے زیادہ قانون سازی موجودہ دور میں ہوئی ہے۔

اُن کے بقول، "ماضی میں انسانی حقوق کے حوالے سے توجہ سوشل ویلفیئر کی طرف ہوتی تھی۔ ہم نے آئین میں دیے گئے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی، اقدامات اور آگاہی شروع کی ہے۔"

ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کے حقوق، گھریلو تشدد، کم عمر بچوں سے مزدوری کرانے اور خواجہ سراؤں سے متعلق مؤثر قوانین موجود ہیں ۔ ان کے بقول پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں قانون کی منظوری کے بعد ٹرانس جینڈرز کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر الگ شناخت موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صحافیوں کے تحفظ اور معمر افراد کے حقوق کے قانونی بل پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیے جاچکے ہیں جب کہ وزارت انسانی حقوق نے وزیرِ اعظم کی ہدایت پر مذہب کی جبری تبدیلی کے قانون کا مسودہ بھی تیار کرلیا ہے۔

شیریں مزاری کہتی ہیں ملک میں قوانین موجود ہیں تاہم ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور ان کی وزارت پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG