رسائی کے لنکس

قومی سلامتی کے مشیر کی قیادت میں پاکستانی وفد کابل کا دورہ کرے گا


معید یوسف (فائل فوٹو)
معید یوسف (فائل فوٹو)

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف رواں ماہ ہمسایہ ملک افغانستان کا دورہ کریں گے۔ یہ فیصلہ جمعرات کو افغانستان کے بارے میں اسلام آباد میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کر رہے تھے۔

قومی اسمبلی سے جاری بیان کے مطابق افغانستان کے حوالے سے بین الوزارتی کوارڈینیشن سیل کے اجلاس کو بتایا گیا کہ معید یوسف کی سربراہی میں پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد جلد کابل کا دورہ کرے گا۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر کا یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب طالبان کی جانب سے پاک افغان سرحد (ڈیورنڈ لائن) پر سے باڑ ہٹائے جانے کے واقعات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سوشل میڈیا پر مسلسل ایسی ویڈیوز گردش کرتی رہی ہیں جن میں سرحد پر سکیورٹی کے لیے نصب خاردار تاروں کو اکھاڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس تنازعے پر پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بدھ کو کہا تھا کہ پاکستان افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل نہ صرف مکمل ہوگا بلکہ قائم رہے گا۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس امید کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان ڈیورنڈ لائن پر باڑ اُکھاڑنے کے معاملے کو سفارتی ذرائع سے حل کر لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاملے پر خاموش نہیں ہے، بلکہ اس بابت افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے۔پاکستانی حکام کے مطابق 2600 سو کلومیٹر پر محیط پاک افغان سرحد کے 94 فیصد حصے پر باڑ لگانے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔

افغانستان پاک افغان سرحد کو متنازع معاملہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کی طرف سے سرحد پر باڑ لگانے پر معترض رہا ہے۔ لیکن پاکستان کابل کے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ سرحد پر باڑ نصب کرنا سرحدی سیکیورٹی کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر کا یہ دورہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کا کابل کا پہلا دورہ ہوگا۔

اس سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اس وقت کے انٹیلی جنس چیف جنرل فیض حمید بھی افغانستان کے دورے میں طالبان قیادت سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے دورے کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے پر بھی بات چیت کا امکان ہے۔ طالبان حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی اور مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔

پاکستان افغانستان میں انسانی بحران کو روکنے کے لیے عالمی برادری پر مسلسل زور دیتا رہا ہے کہ کشیدگی سے متاثر ملک کے عوام کی مدد کی جائے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کی حکومت کی جانب سے امدادی خوراک کی ترسیل کی جا رہی ہے اور عالمی امدادی تنظیموں کو بھی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔

پاکستان میں پشتو ٹیلی ویژن چینل سے وابستہ سنیئر صحافی اور افغان امور کے تجزیہ کار حنیف خان کا بھی یہی کہنا تھا کہ پاکستانی وفد کے دورہ کابل کو سرحدی باڑ اکھاڑے جانے کے تناظر میں دیکھنا درست نہیں۔ بقول ان کے، باڑ کا مسئلہ کوئی خاص معاملہ نہیں یہ بلکل مقامی سطح کا مسئلہ ہے جو بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت عالمی ڈونرز اور مقامی امدادی اداروں کو افغانستان میں رسائی دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اور یہ دورہ اسی متعلق طریقہ کار تیار کرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتا ہے۔ تاہم، کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی، سیکورٹی انتظامات، بارڈر منجمنٹ اور دیگر امور پر بھی بات چیت کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے بعد میں پاکستانی سینیٹ کی اسٹیڈنگ کمیٹی برائے دفاع کو بھی بند کمرے میں بریفنگ دی۔ انھوں نے اس بریفنگ کے بعد اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ سینیٹ کمیٹی کی بریفنگ نہایت تعمیری رہی اور اراکین کمیٹی نے انھیں بڑا سراہا۔

سینیٹ اسٹنڈنگ کمیٹی کے رکن مشاہد حسین سید نے اس بریفنگ کے بعد وی او اے کے پوچھے گئے اس سوال پر کہ موجودہ حالات میں جب سرحد پر باڑ اکھاڑےجانے کے معاملےپر تناؤ ہے پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر کی قیادت میں وفد کے دورہ کابل کی کیا اہمیت ہے اور وہاں کن موضوعات پر بات چیت کا امکان ہے۔ انھوں نےکہا کہ یہ دورہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ علاقے کے دیگر ممالک کے رہنما بھی کابل کا دورہ کر رہے ہیں جن میں ایران، چین، روس، ترکی وغیرہ شامل ہیں۔ وہاں ایک ڈولپنگ صورتحال ہے۔ ''تاہم، وہاں کن موضوعات پر بات ہوگی اس حوالے سے سرکاری ترجمان ہی کچھ بہتر بتا سکتے ہیں''۔

برسلز میں مقیم معروف افغان صحافی اور تجزیہ کار میر واعظ افغان کا کہنا ہےکہ پاکستان کی ان دنوں یہ کوشش ہےکہ طالبان کو افغان عوام میں قابل قبول بنا کر ان کی حکومت کو مستحکم کیا جائے۔ پاکستانی مشیر قومی سلامتی کا دورہ کابل اسی سلسلے کی کڑی ہو سکتا ہے۔ ان کے خیال میں، سرحدی باڑ کا جو مسئلہ ان دنوں سامنے آیا ہے وہ بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ بقول ان کے، ''وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ طالبان پاکستان کے محتاج نہیں اور پاکستان انھیں کوئی ڈکٹیشن نہیں دیتا''۔

XS
SM
MD
LG