انڈونیشیا کے شہر مموجو کی سوادا مسجد میں جیسے ہی جمعے کی نماز ختم ہوئی، عبادت گزاروں کی توجّہ مسجد کے باہر موجود فخرِ عفّان پر مرکوز ہو گئی جو مسجد کے اوپر اپنا ڈرون اُڑا کر مسجد کی تصاویر لے رہے تھے۔
عفّان انڈونیشیا کی وزارتِ مذہبی امور کے لیے کام کر رہے ہیں اور وہ ایک ہزار رکنی سرکاری ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں جو انڈونیشیا میں مساجد کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
یہ ٹیم گزشتہ کئی برسوں سے ملک بھر میں مساجد تلاش کر رہی ہے اور اس کام کے لیے اس کے ارکان انڈونیشیا کے ہر جزیرے کے ہر کونے میں جا رہے ہیں۔
اس ٹیم کا کام صرف ایک سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک میں کُل کتنی مساجد ہیں؟
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق، انڈونیشیا کی کُل آبادی 26 کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں سے 90 فی صد آبادی مسلمان ہے۔ لہٰذا، انڈونیشیا دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی رکھنے والا ملک ہے۔
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد استقلال مسجد قائم ہے، جس میں دو لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے۔
اس کے علاوہ ملک بھر میں لاکھوں چھوٹی بڑی مساجد قائم ہیں جن کی درست تعداد حکومت کو بھی معلوم نہیں ہے۔ حکومت نے اندازہ لگایا تھا کہ تقریباً سات لاکھ 40 ہزار مساجد ملک بھر میں قائم ہیں۔
البتہ، انڈونیشیا کے سابق نائب صدر یوسف کلّا نے کہا تھا کہ صرف خدا کو ہی اس بات کا علم ہے کہ انڈونیشیا میں کتنی مساجد ہیں۔
عفّان کی سربراہی میں مساجد تلاش کرنے والی ٹیم اب تک پانچ لاکھ 54 ہزار 152 مساجد کو رجسٹر کر چکی ہے۔ مساجد شماری کا یہ عمل 2013 میں شروع کیا گیا تھا جو اب تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
عفان کے بقول، اب ان کا کام 75 فی صد تک مکمل ہو چکا ہے۔
مساجد کی گنتی عفان اور ان کے ساتھیوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ کیوں کہ انڈونیشیا تقریباً 17 ہزار جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے جس کے ہر کونے اور ہر حصے میں نئی مساجد بنتی رہتی ہیں۔
مموجو شہر میں سوادا مسجد کی معلومات حاصل کرنے کے بعد عفان نے انہیں اور ڈرون سے لی گئی تصاویر کو ایک آن لائن ڈیٹا بیس میں محفوظ کر دیا ہے۔
'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم پہلے یہ کام مینوئلی کرتے تھے، لیکن اب ہم ڈیجیٹل ہو رہے ہیں۔
حکومت مساجد سے متعلق معلومات کے لیے ایک اسمارٹ فون ایپلی کیشن لانچ کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے جسے 'انفو مسجد' کا نام دیا گیا ہے۔ اس ایپلی کیشن سے لوگ قریبی مسجد کی لوکیشن اور معلومات موبائل فون پر حاصل کر سکیں گے۔
عفان اور ان کی ٹیم کو امید ہے کہ اپنے کام کا ابتدائی مرحلہ رواں سال مکمل کر لیں گے۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ختم نہ ہونے والا کام ہے اور کبھی ختم نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی مسجد کو بند یا ختم کر دیا گیا ہو۔ لیکن، ایک چیز یقینی ہے کہ نئی مساجد کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوگا۔