رسائی کے لنکس

'بھارت کے مسلمان اب پرانے کاغذات تلاش کر رہے ہیں'


شہریت قانون کے خلاف آئین و قانون کے ماہرین، انسانی حقوق کے کارکن اور حزب اختلاف کے سیاست دان اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس قانون کے درپردہ خطرناک عزائم پوشیدہ ہیں۔
شہریت قانون کے خلاف آئین و قانون کے ماہرین، انسانی حقوق کے کارکن اور حزب اختلاف کے سیاست دان اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس قانون کے درپردہ خطرناک عزائم پوشیدہ ہیں۔

اس وقت بھارت کے بیشتر عوام کے جذبات مشتعل ہیں۔ لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

لوگ کیوں بے چین ہیں؟ کیوں سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ کس چیز کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں؟ اگر ایسے سوالات کیے جائیں تو ہر طرف ایک ہی آواز آئے گی کہ ہم شہریت قانون کے خلاف ہیں۔ ہم اسے ملک میں نافذ نہیں ہونے دیں گے اور حکومت کو اسے واپس ہی لینا ہوگا۔

شہریت قانون کیا ہے اور لوگ اس قانون پر کیوں مشتعل ہیں؟ دراصل یہ قانون مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا اعلان کرتا ہے۔ مسلمان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ اس کی زد پر ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمان ہیں۔

یہ قانون گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو چکا ہے۔ اس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا جس پر احتجاج ہو رہا ہے۔

بھارت کے آئین سازوں نے اسے ایک سیکولر ملک بنایا تھا۔ یہاں کے آئین میں سب کو یکساں حقوق و اختیارات اور مراعات حاصل ہیں۔ یہاں کا آئین مذہب، ذات، برادری، جنس، زبان اور رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز برتنے کے خلاف ہے اور مذہبی رواداری اس کی روح ہے۔

مذکورہ قانون نے اس کی روح پر حملہ کیا ہے۔ وہ مذہب کی بنیاد پر یہاں کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ، جو کہ دوسرے بہت سے ملکوں کی مجموعی آبادی سے بھی بڑی ہے، امتیازی سلوک کرتا ہے۔

شہریت قانون کا ایک پہلو تو پورے ملک کے مسلمانوں سے وابستہ ہے تو دوسرا پہلو شمال مشرقی ریاستوں سے متعلق ہے۔

آسام اور تریپورہ کے لوگوں کو اس قانون پر شدید تحفظات ہیں۔ اُن کا مؤقف ہے کہ اس قانون کے تحت وہاں موجود لاکھوں بنگالیوں اور ہندوؤں کو شہریت مل جائے گی جس کی وجہ سے آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا اور وہاں کی ثقافت بھی متاثر ہو جائے گی۔

بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس قانون کے خلاف سب سے پہلی آگ شمال مشرقی علاقوں میں ہی بھڑکی۔ اس کے خلاف احتجاج کے دوران کئی افراد کو اپنی جانیں تک گنوانا پڑیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر اس قانون کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

آئین و قانون کے ماہرین، انسانی حقوق کے کارکن اور حزب اختلاف کے سیاست دان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس قانون کے در پردہ خطرناک عزائم پوشیدہ ہیں۔

شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے الزام عائد کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت عملاً ہندو احیا پسند جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی حکومت ہے جو ہندو ہندوستان کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے اور ہندوستان کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کر دینے کے لیے کوشاں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ آئین کی روح کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ بنانے کی حکومت کی کوششوں کو ناکام کر دینا چاہتے ہیں۔

شہریت قانون کا دوسرا رُخ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) سے جا کر ملتا ہے۔ یہ ایکٹ این آر سی کو مزید خطرناک بناتا ہے۔ اس کی مدد سے آسام کے ان 13 لاکھ ہندوؤں کو جو کہ این آر سی سے باہر رہ گئے تھے۔ شرنارتھی (پناہ گزین) کہہ کر شہریت دے دی جائے گی مگر باہر رہ جانے والے لاکھوں مسلمانوں کو غیر ملکی درانداز کہہ کر نکالنے یا حراستی مراکز میں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔

وزیر داخلہ امت شاہ اعلان کر چکے ہیں کہ اب پورے ملک میں این آر سی نافذ کیا جائے گا۔

این آر سی کے نفاذ کی صورت میں ہر شہری کو کم از کم 50 سال کا ریکارڈ پیش کرنا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اسی ملک کا شہری ہے۔

بہت سے ماہرین اسے ہندوستانی شہریوں کی توہین و تذلیل قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جن لوگوں کا ملک کی جدوجہد آزادی میں کوئی کردار نہیں تھا وہ آج سب سے بڑے محب وطن بن گئے ہیں۔ اور وہی دوسروں سے ان کی حب الوطنی اور شہریت کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔

بھارت کے مختلف حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ایسے افراد جن کے پاس اپنا اور اپنے آباؤ اجداد کا کوئی ریکارڈ نہیں ہو گا تو کیا حکومت ان تمام لوگوں کو غیر ملکی قرار دے دے گی؟ اور اگر ایسا ہوا تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔

سیاسی و سماجی ماہرین اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اس صورت میں شہریت ترمیمی ایکٹ کا ناجائز استعمال ہو گا۔ جو ہندو اپنی شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہیں گے انہیں اس ایکٹ کی آڑ میں شہریت دے دی جائے گی اور جو مسلمان ناکام رہیں گے انہیں حراستی مراکز میں بھیجنے کی کوشش کی جائے گی۔

میں سوچتا ہوں کہ خدا نہ کرے اگر واقعی ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟ اس قسم کے اندیشے میں گرفتار ہونے والا میں واحد شخص نہیں ہوں۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو مستقبل کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف مقامات پر مسجدوں اور دیگر مراکز سے ایک مہم شروع کی گئی ہے اور وہ مہم یہ ہے کہ خود کو کاغذات اور دستاویزات سے لیس کر لو۔ جو لڑائی آگے لڑنی ہے وہ انہی کاغذ کے ہتھیاروں سے لڑی جائے گی۔

بنگلور میں تو متعدد مساجد کو باقاعدہ تربیتی مراکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں رضاکار عام شہریوں اور بالخصوص مسلمانوں کو اس سلسلے میں بیدار کر رہے ہیں۔

لاکھوں کی تعداد میں لٹریچر اور پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کیے جا رہے ہیں اور معاملے کی سنگینی سے بے خبر مسلمانوں کو عملی تربیت دی جا رہی ہے۔

آج مسلمانوں کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں اپنے آبا و اجداد کے کاغذات خواہ وہ زمین کے ہوں یا مکان کے، تعلیمی اسناد ہوں یا ملازمتوں کے ثبوت، کھنگالنے اور اکٹھا کرنے کی کوشش نہ کی جا رہی ہو۔

آج لاکھوں افراد اس مہم میں شریک ہیں اور اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔

کیا ان کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG