رسائی کے لنکس

پی ڈی ایم حکومت کے آٹھ ماہ؛ ایم کیو ایم کو کیا ملا؟


مارچ 2022 میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تو اس وقت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی اہم اتحادی سمجھی جاتی تھی اور قومی اسمبلی میں اس کی سات نشستوں کو تحریک انصاف کی حکومت کی اکثریت میں کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن مارچ کے مہینے کے اختتام تک ایم کیو ایم یہ اتحاد چھوڑنے کا فیصلہ کرچکی تھی جسے خود ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کئی بار فطری اتحاد سے تعبیر کرتی آئی تھی۔

اس کے بعد وفاقی کابینہ میں شامل ایم کیو ایم کے دو وزرا یعنی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اور وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن امین الحق نے استعفیٰ دیا۔

ایم کیو ایم کی پی ٹی آئی کی اتحاد ی کی حیثیت سے علیحدگی اور پاکستان ڈیمو کریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ساتھ اتحاد میں شمولیت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان18 نکاتی معاہدے کے تحت عمل میں آئی۔

جس کے تحت صوبۂ سند ھ میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں بااختیار بلدیاتی نظام، شہری اور دیہی سندھ میں ملازمتوں کے کوٹے پر قانون کے مطابق عمل درآمد، جعلی ڈومیسائل کی روک تھام، مقامی پولیسنگ کا نظام متعارف کرانے، شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم میں بہتری، حیدرآباد میں اور خواتین کے لیے جامعات کے قیام سمیت صوبے کے اہم، سیاسی، انتظامی اور معاشی فیصلے باہمی مشاورت سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس معاہدے پر پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو زرداری اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے دستخط کیے۔ ضامن کے طور پر موجودہ وزیرِاعظم شہباز شریف، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل اور بلوچستان عوامی پارٹی کے خالد مگسی نے دستخط کیے۔

البتہ اس معاہدے کے بعد بھی ایم کیو ایم کے مختلف رہنماؤں کی جانب سے ایسی شکایات سامنے آتی رہیں کہ معاہدے پر اس کی رُو کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔

ایک طرف رہنماؤں کی شکایات تھیں تو دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ تعینات کردیا گیا، جس کے بعد صوبے میں نئے بلدیاتی قانون کی تیاری پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے ہٹا کر ایم کیو ایم کے ڈاکٹر سیف الرحمٰن کو نیا ایڈمنسٹریٹر کراچی تعینات کردیا گیا۔

دوسری جانب خود ایم کیو ایم کے اندر لوگ اور تجزیہ کار متحدہ اور پیپلزپارٹی کے اتحاف پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے مفادات میں بہت زیادہ فرق ہے۔

ان کے خیال میں دونوں کو اپنے ووٹ بینک کو منظم رکھنے کے لیے سیاسی میدان میں اُن داؤ پیچ کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کی زد میں دوسری جماعت ہی آتی ہے۔ اس لیے بعض سیاسی تجزیہ کار اس اتحاد کو پائیدار قرار دیتے نظر نہیں آتے۔

'ایم کیو ایم اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے'

سنیئیر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم نے ان آٹھ ماہ میں اب تک کوئی ایسی خاطر خواہ کامیابی نہیں سمیٹی۔ان کے بقول ایم کیو ایم اپنی بقا کی جنگ میں مصروف دکھائی دیتی ہے، جس میں اسے اب تک کامیابی نہیں مل پائی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ متحدہ سے تعلق رکھنے والے کامران ٹیسوری گورنر سندھ تعینات کیے جاچکے ہیں۔ لیکن درحقیقت گورنر سندھ پارٹی کی مرضی کے مطابق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کو اپنے ووٹرز کو پھر سے راغب کرنے میں کافی چیلنجز درپیش ہیں۔ ایم کیو ایم کے اندر اب بھی پیپلزپارٹی سے اتحاد کی قبولیت فی الحال کم ہی نظر آتی ہے۔ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کے بجائے تحریک انصاف کے ساتھ رہنے یا پھر آزاد حیثیت ہی میں رہنے میں بہتر پوزیشن میں ہوتی۔

لیکن بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف کا ساتھ ''کسی'' کے کہنے پر چھوڑا ورنہ پارٹی کے پاس بھی کوئی خاص دلیل نہیں کہ آخر ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیوں کیا۔

اس سوال پر کہ دونوں جماعتیں صوبے میں نئے بلدیاتی نظام لانے کے لیے مذاکرات کر رہی ہیں اور دونوں کی جانب سے اب تک مثبت بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ مظہر عباس کے خیال میں یہ مذاکرات پھلدار ثابت ہوتے نظر نہیں آرہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات سے قبل اب دوبارہ حلقہ بندیوں کی جانب نہیں جائے گی جب کہ ماضی میں ایم کیو ایم یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ پیپلز پارٹی نے انتخابی نتائج اپنے حق میں کرنے کے لیےصوبے کے شہری علاقوں بشمول کراچی میں حلقہ بندیوں میں من مانی تبدیلیاں کی ہیں۔

مظہر عباس کے خیال میں اگر حلقہ بندیاں اب تبدیل بھی کردی جائیں تو بھی ایم کیو ایم کو زیادہ فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا اور ایسا نہیں لگتا کہ وہ ووٹرز کو باآسانی اپنی جانب راغب کر پائے گی کیوں کہ ان کے سامنے اب تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی پوزیشن اب ماضی والی نہیں رہی۔ماضی میں ایم کیو ایم کو ووٹ دینے والے اردو بولنے والوں کا ووٹ جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور تحریک انصاف میں تقسیم ہوا ہے۔

'ایم کیو ایم کے مطالبات پر عملدرآمد جاری؛ ووٹرز بھی کہیں نہیں گئے'

ادھر متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اس سے اتفاق کرتے نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کئی کوششیں ہوئیں۔ 22 اگست 2016 کو الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد کہا گیا کہ ایم کیو ایم ختم ہوگئی، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اب بھی ایسا نہیں ہوسکتا ۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم کا ووٹر اب بھی ایم کیو ایم کا ہی حامی ہے اور وہ کسی اور کا نہیں ہوا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 75 سال بعد ایم کیو ایم ہی کے مطالبے پر حیدرآباد میں پہلی سرکاری یونیورسٹی کا قیام عمل میں آرہا ہے جبکہ کراچی میں بھی مزید سرکاری یونیورسٹیز بننے جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے لاپتا کارکنوں کی رہائی میں بھی پیش رفت ہوئی ہے اور 225 لاپتہ کارکنوں میں سے اب تک 125 کے قریب واپس آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ جیلوں میں موجود کارکنوں کی تعداد بھی یکسر کم ہوچکی ہے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں میٹرو بس منصوبے کی تکمیل ایم کیو ایم ہی کے مطالبے پر عمل میں لائی جارہی ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ بھی ایم کیو ایم کی کاوشوں سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کی فہرست میں شامل کیا گیا اور اب کراچی کے شہری اسے واقعی بنتا دیکھیں گے۔

سربراہ ایم کیو ایم کے مطابق محض سات قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے کے باوجود ایم کیو ایم کی کاوشوں سے وفاقی حکومت شہر میں 42 ارب روپے کی لاگت سے آئی ٹی پارک بنانے جا رہی ہے، جس سے ہزاروں نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات، حلقہ بندیوں میں تبدیلیوں، مردم شماری دوبارہ کرانے، ووٹر لسٹوں میں پائے جانے والے تضادات دور کرنے، صوبے میں شہری علاقوں کے یےمختص کوٹے پر عمل درآمد اور نئے صوبے کے قیام جیسے مطالبات پر اب بھی قائم ہے۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ ہر تنازعے کے حل کے لیے ہم مذاکرات اس لیے کررہے ہیں تاکہ پاکستان کے آئین، قانون اور جمہوریت کو موقع دیا جاسکے۔انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ ایم کیو ایم کی قیادت اور سیاست کسی قسم کی مایوسی کا شکار ہے۔

تاہمکئی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم کو اپنی سیاست پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیےجب تک پارٹی کے مختلف گروہ مل کر کوئی اپنا نیا بیانیہ نہیں کھڑا کریں گے اس وقت تک ایسا نہیں لگتا کہ ایم کیو ایم خود کو درپیش مشکلات سے نکال پائے گی اور اس کا اندازہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں بخوبی ہوجائے گا۔

ایم کیو ایم کو ایک عرصے سے کور کرنے والے صحافی اظفر الاشفاق کے بقول اگر ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے متحد ہوبھی جائیں تو بھی ان میں موجود شخصیات کے درمیان اختلافات بعض سیاسی نظریات پر یکجا ہونے کے بجائے ذاتی مفادات کے تابع ہی دکھائی دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ایم کیو ایم ایک بار پھر ماضی کی طرح مقبول جماعت بن کر ابھر پائے گی یا نہیں۔

XS
SM
MD
LG