رسائی کے لنکس

مبارک احمد کیس: سپریم کورٹ کا مذہبی اداروں سے معاونت لینے کا فیصلہ


پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے پر مختلف مذہبی اداروں سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے چھ فروری کو احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے فرد مبارک احمد ثانی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس پر مذہبی تنظیموں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا۔

مبارک احمد کی رہائی کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نفرت آمیز مہم بھی چلائی گئی۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سپریم کورٹ نے پیر کو سماعت کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل اور جامعہ نعیمیہ سے معاونت طلب کر لی ہے جب کہ قرآن اکیڈمی کراچی، جمعیت اہلحدیث کو بھی حکم نامے کی کاپی ارسال کرنے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ کوئی اسلامی اسکالر یا کوئی بھی ذمے دار شخص عدالت کی معاونت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ اعلیٰ عدالت نے چھ فروری کو مبارک احمد ثانی نامی ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں قرآنی آیات کے حوالہ جات بھی دیے تھے۔

ملزم پر قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی سمیت تین الزامات عائد کیے تھے۔

غلطی اگر ہو گئی ہو تو اصلاح ہو سکتی ہے، چیف جسٹس

سماعت کے دوران جماعتِ اسلامی کے وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں مبارک ثانی کیس میں عدالت کی درست معاونت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے چھ فروری کے آرڈر میں غلطی ہوئی۔

شوکت صدیقی نے کہا کہ درخواست گزار نے دفعات حذف کرنے کی استدعا کہیں نہیں کی تھی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا یہ ایک ضمانت کے کیس کا معاملہ تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست ضمانت کا تھا اور ایک فردِ جرم میں ترمیم کا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ہمارے ایمان پر سوال نہ اٹھائیں۔ یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس کا بھی کہنا تھا کہ آپ ہمارے ایمان پر سوال نہ اٹھائیں ہم آپ کے ایمان پر نہیں اٹھاتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ امام مالک نے کہا تھا کہ اختلاف ایسے کرو سامنے والے کے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں تو نہ اڑیں۔ اگر غلطی ہو گئی ہو تو اصلاح ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں کہوں آج تک کسی فیصلے میں مجھ سے غلطی نہیں ہوئی تو یہ غلط ہو گا جس پر وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ یہ آپ کا بڑا پن ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آئین کے معاملے پر جماعت اسلامی کے وکیل کو سنیں گے، کیس کے میرٹس پر صرف متعلقہ فریقین کو سنیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مختلف مکاتبِ فکر کے علما اور فریقین کو نوٹس کر دیں تو اچھا نہیں ہو گا؟ قرآن اکیڈمی کراچی جیسے ادارے ہیں انہیں بھی نوٹس کر دیتے ہیں اور تحریری فیصلہ انہیں بھیج دیتے ہیں۔ اگر وہ سمجھیں اس میں کوئی دینی غلطی ہے تو جواب دے دیں۔

وکیل شوکت عزیز نے کہا کہ مفتی منیب الرحمان اور دیگر کو نوٹس کر دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو بھی فیصلے کی حد تک رہنمائی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے مختلف دینی مدارس و اداروں کو نوٹس جاری کر دیے۔

معاملہ کیا ہے؟

چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا جس کے مدعی تحفظ ختم نبوت فورم نامی تنظیم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ تھے۔

ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق سات مارچ 2019 کو مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر 'تفسیرِ صغیر' 30 بچوں اور 32 بچیوں میں تقسیم کی گئیں۔

مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ "تقریب کا اہتمام کرنے والے اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔"

فورم

XS
SM
MD
LG