رسائی کے لنکس

30 ریاستیں 30 مساجد


30 ریاستیں 30 مساجد
30 ریاستیں 30 مساجد

گزشتہ کچھ ہفتوں سے نیویارک میں اس مقام کے قریب جو11 ستمبر کی دہشت گردی کانشانہ بناتھا، اور جسے اب گراؤنڈ زیرو کہاجاتا ہے، ایک اسلامک سینٹر کے قیام کا منصوبہ اور اس کے حق اور مخالفت میں شروع ہونےوالی بحث خبروں کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس سے امریکہ میں اسلام مخالف جذبات پھیل سکتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں 30 امریکی ریاستوں کی 30 مساجد کا دورہ کرنے کی ایک مہم چلانے والے دو مسلمان نوجوان کہتے ہیں کہ انہیں اپنے اس ایک مہینے کے سفر میں امریکہ کی کسی ریاست میں اسلام یا مسلمانوں سے نفرت کا سامنا نہیں ہوا۔

امان علی
امان علی

امان علی کے تجربات درحقیقت امریکی ریاست اوہائیو کے ایک چھوٹے سے شہر میں پلنے بڑھنے والے مسلمان نوجوان کے تجربات ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے سکول میں واحد ایسا بچہ تھا جو مسلمان تھا اور کسی اقلیتی گروپ سے تعلق رکھتا تھا ۔ مجھے لوگوں کو صرف یہ ہی نہیں سمجھانا پڑتا تھا کہ مسلمان ہونا کیا ہے بلکہ یہ بھی کہ میں سیاہ فام کیوں نہیں کہلا سکتا ۔

بسام طارق
بسام طارق

بسام طارق کا تجربہ بھی ریاست ٹیکساس کے شہر شوگر لینڈ کی پاکستانی کمیونٹی میں دو الگ دنیاؤں کے درمیان بڑے ہونے جیسا تھا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہم نہ یہاں کے ہیں ، نہ وہاں کے ۔ ہم درمیان میں ہیں ۔

ان دونوں نوجوانوں کی پہلی ملاقات امریکہ کے مرکزی شہر نیویارک میں ہوئی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب11 ستمبر 2001ء کی دہشت گردی کے مقام پر اسلامک سینٹر کے قیام کے منصوبے پر امریکہ میں شروع ہونے والی بحث نے یہاں مذہبی رواداری کی برسوں پرانی روایت خطرے میں ڈال دی ہے ۔ اسی بحث نے انہیں نیویارک شہر کے پارک ففٹی ون اسلامک سینٹر سے شکاگو کے مضافات میں واقع ایک شیعہ مسجد تک 18 ہزار کلومیٹر کا سفر کرنے اور ان شہروں کے درمیان واقع امریکہ کو دیکھنے کی تحریک دی ۔

رمضان المبارک کے دوران انہوں نے 30 ریاستوں کی 30مساجد کو دیکھنے کی کوشش کی۔

علی اور طارق کا یہ رمضان روڈ ٹرپ امریکہ کی 30 مساجد کو 30 دن میں دیکھنے کی اسی کوشش کا دوسرا حصہ ہے ، جس کے تحت انہوں نے پچھلے سال نیویارک شہر کی 30 مساجد کا دورہ کیا تھا ۔ اس کوشش نے جس کی تفصیلات ان کی ویب سائٹ 30 mosques.com پر موجود ہیں، ان کے حالیہ منصوبے کی راہ ہموار کی ۔ اپنی اس مہم میں انہوں نے ایک مسلمان کے طور پر امریکہ کو دیکھا ۔

امان علی کہتے ہیں کہ 11 ستمبر کے بعد کے امریکہ میں مجھے یہ بہت عجیب لگتا ہے کہ بات اب صرف نسلی امتیاز ، نفرت پر مبنی جرائم ، ائیر پورٹ سیکیورٹی ، یا اسلامک سینٹر کے قیام کی مخالفت کی ہی ہوتی ہے ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ اہم مسائل ہیں ، لیکن یہاں کے مسلمانوں کی صرف یہی پہچان نہیں ہے ۔

علی کہتے ہیں کہ امریکی مسلمانوں کی بھی ویسی ہی دلچسپیاں ہیں ، جیسی کہ دیگر امریکیوں کی اور ان کی روداد علی اور طارق کے بلاگ پر امریکی مسلمانوں کی زندگی کے مختلف رنگوں کی کہانیاں سنا رہی ہے ،۔ جو انہیں اپنے اس سفر میں دیکھنے کا موقعہ ملا۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے سفر کے دوران ایک بے حد متنوع قسم کی مسلمان کمیونٹی سے ملنے کا موقعہ ملا ، جنہوں نے امریکی زندگی میں جذب ہونے کے لئے نہایت نفاست سے درمیان کا راستہ تلاش کر لیا ہے ۔ اب تک انہیں امریکہ میں کسی نفرت انگیز تجربے کا سامنا نہیں ہوا ۔

بسام طارق کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا کوئی نہیں ملا جسے اس کے امریکی ہمسایوں نے نقصان پہنچایا ہو ۔ بلکہ ہم نے تو اس کے بر عکس صورتحال دیکھی ہے ۔

امان علی کا کہنا ہے کہ دوسرے ملکوں کے لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کو کسی دباؤ کا سامنا ہے اور میں پچھلے کچھ دنوں کی منفی صورتحال کو کم کرکے بالکل نہیں دکھانا چاہتا ۔ مگر صرف یہی معاملے یہاں ہماری زندگی کی نمائندگی نہیں کرتے ۔

یہ روڈ ٹرپ ان دونوں کے لئے اپنی تلاش کا سفر بھی ثابت ہوا ہے ۔

بسام طارق کا کہنا ہے کہ اس امریکہ کو دیکھ کرہمیں پتہ چلا کہ لوگ امریکہ کی کتنی بڑے پیمانے پر تعریف کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں ۔ مسلمان اور غیر مسلمان دونوں ، میرا مطلب ہے کہ اب ہمارا گھر یہی ہے ۔

امان علی کہتے ہیں کہ ہمارے دوہرے کردار نہیں ہیں ۔ ہم اس ملک میں رہتے ہیں ، پڑھتے ہیں اورباقی سب امریکیوں جیسے ہیں ۔

مگر ریاست مشی گن اور ٹینی سی کے مسلمانوں سے ملنے کے بعد علی اور طارق نے اس سال عید نیویارک میں منائی ہے ، جہاں ایک نئے اسلامک سینٹر کے قیام کی بحث امریکہ میں مذہبی رواداریوں کا نیا امتحان لے رہی ہے ۔

XS
SM
MD
LG